Sunday, March 15, 2020

Aisha Aslam Feature - Urdu MMC 9

Ur topic Latifabad was approved with this note and outline 
لطیف آباد کس طرح سے حیدرآباد شہر سے مختلف ہے؟ یا لطیف آباد اور پرانے شہر میں فرق کیا ہے؟
رہن سہن،  تعلیم، کھاناپینا، کاروبار وغیرہ۔
تھوڑا سا یہ بھی ذکر کہ لطیف آباد کسی اور کب آباد ہوا۔ اس میں بڑی بڑی تبدیلیاں کب آئیں؟
اس کو رپورٹنگ بیسڈ ہونا چاہئے۔ جن جن سے بات کرو اس کا دو تین الفاظ میں تعارف ہونا چاہئے۔ بات چیت کے دوران دلچسپ جملے نوٹ کرو اور انہی کو بیان کرو۔
فیچر دراصل معلومات کا غیر رسمی طریقے سے بیان کرنا ہوتا ہے۔ اس کا بنیادی کام تفریح مہیا کرنا ہوتا ہے۔ لہٰذا معلومات کو دلچسپ انداز میں لکھنا ہوگا۔ 

Outline and instructions are not followed.
Make reporting based, with interesting and informative comments from related people (those those people and their status) 
Write in interesting manner as some samples on group are available for reference.
Do not write "Ab hum baat krty hn" etc 
File name is wrong and is sent in inpage's template format. We have to take extra effort and convert it.  Do not send in BO1 format, but only in inpage.
Some fotos will also required. Mind it not to insert foto in text file 
Observe proper paragraphing
Referred back, follow instructions. can file till March 19


فیچر ٹوپک
 لطیف آباد میں مختلف خوبیاں اور اچھے اثرات
عائشہ محمد اسلم 
رول نمبر : 2K20/MMC/9
لطیف آباد پہلے ایک جنگل اور پہاڑی علاقہ تھا جہاں لوگ مٹی والے گھر بناکے رہا کرتے تھے۔ جس کی چھتیں، چٹائی پر ریت کی ہوا کرتی تھیں۔ اور یہ گھر ٹھنڈے ہوا کرتے تھے اور کچھ لوگ پہاڑی علاقوں پر پتھروں کے گھر بناکر رہا کرتے تھے لطیف آباد اپنے پہاڑی علاقوں کی وجہ سے مشہور ہوا۔ سب سے پہلے اس پہاڑی علاقے پے ایک شخص آکے رہا جس کا نام " شاہ عبدالطیف بھٹائی "تھا "شاہ عبدالطیف بھٹائی"کی وجہ سے اس جگہ کی پہچان بنی۔ اور اس جگہ کو انہیں لطیف کے نام پر لطیف آباد نام رکھا گیا "شاہ عبدالطیف بھٹائی "کی وجہ سے دنیا میں حیدرآباد شہر میں لطیف آباد کو اپنی حیثیت و مقام اور پہچان حاصل ہوئی۔ 
Following para is irrelevant
حیدرآباد شہر میں لطیف آباد مشہور ہونے کے کچھ مقامات یہ ہیں "کچا قلعہ، پکا قلعہ، ٹھنڈی سڑک، رانی باغ کی عید گاہ، عبدالوہاب صاحب کا مزار، ریڈیو پاکستان، پریس کلب اور ایشیاء کا سب سے بڑا بازار " یہ سب مشہور مقامات موجود ہیں جس کی وجہ سے لطیف آباد بہت مشہور ہے "اب ہم بات کرتے ہیں "کچے قلعے اور پکے قلعے سے جنگ کے دوران ہم نے یہاں سے اپنا دفع کیا ٹھنڈی سڑک اور بھی اس لیئے زیادہ مشہور ہے کہ یہ ٹھنڈی سڑک کا علاقہ اور یہاں کے گھر بہت ٹھنڈے اور پرسکون رہتے ہیں۔ رانی باغ بچوں، بڑوں کیلئے ایک اچھی تفریح گاہ ہے اور یہاں چڑیا گھر، بچوں کیلئے پلے گراؤنڈموجود ہے۔ رانی باغ کی عیدگاہ یہ اس لیئے مشہور ہے کہ اس عیدگاہ پے سالوں سال کی عید الفطر اور عید الحضیٰ کی نماز کی جاتی ہے عبدالوہاب صاحب جیلانی رحمتہ اللہ علیہ ان کا ایک اپنا مقام ہے۔ انہی کے مزار سے دنیا بھر کے لوگ شفاء و صحتیابی اور فیض حاصل کرتے ہیں "اب بات کی جائے ریڈیو پاکستان اور پریس کلب " کی تو لطیف آباد شہر میں بہت بڑے اور اچھے ماحول کا ریڈیو اسٹیشن موجود ہے جہاں سے دنیا بھر کی خبروں سے باخبر کیا جاتا ہے۔ اور حیدرآباد شہر میں بڑے بڑے فنکار فلم انڈسٹری کو دیئے ہیں۔ "فنکار کے نام" محمد علی، مصطفی قریشی، شاہ نوازوغیرہ وغیرہ۔ حیدرآباد شہر میں مشہور پریس کلب موجود ہے جہاں پے لوگوں کے ہر نوٹس کا احتجاج کیا جاتا ہے "اب ہم بات کریں " 
 لطیف آباد میں اچھے بڑے بہت پرسکون ماحول کے بازار موجود ہیں۔ اسی بازار میں دنیا بھر کے لوگ بڑے بڑے بازار چھوڑ کر لطیف آباد کے بازاروں میں تشریف لاتے ہیں۔
 (اب ہم بتاتے ہیں کہ لطیف آباد اور دوسرے شہروں سے کیوں مختلف ہے)لطیف آباد شہر میں ایسا بہت کچھ موجود ہے جو کہ اور دوسرے شہروں میں موجود نہیں۔ یہاں پر ہر چیز کی سہولت موجود ہے۔ (مثلاً)ٹرانسپورٹ، تعلیمی ادارے، کھانے پینے، کاروبار ہر کلچر کے رہن سہن اور اچھے بڑے صاف ستھرے گھر، سلجھے ہوئے پڑھے لکھے لوگ موجود ہیں۔ جس کی وجہ سے اور دوسرے شہروں سے ہمارا لطیف آباد شہر بہت مختلف کہلاتا ہے۔ ہمارے اس لطیف آباد شہر کراچی جیسے اور دیگر شہروں سے زیادہ خوشگوار اور نمی والی ہوائیں پائی جاتی ہیں لطیف آباد شہر میں 4قسم کے موسم ہوتے ہیں۔ موسم یہ ہیں "سردی، گرمی، خزا، بہار"یہ سب موسموں میں شامل ہیں۔ "اب ہم بات کرتے ہیں "لطیف آباد کے ماحول کی لطیف آباد کی گلی گلی علاقے، سڑکیں اور چلنے پھرنے والے راستے بہت بہت پرسکون اور کشادہ ہیں لطیف آباد شہر کے ماحول میں یہاں کسی قسم کی کہیں بھی کوئی افراء تفریحی نہیں۔ یہاں کی آب و ہوا کی بات کریں تو یہاں کی آب و ہوا اور ماحول بہت ہی خوشگوار ہوتے ہیں جس کی وجہ سے یہاں کے رہائشی لوگوں کو کسی قسم کی مشکلات یا کوئی تکلیف پیش نہیں آتی لطیف آباد شہر کی اپنی پہچان کچھ یہ بھی ہے کہ لطیف آباد شہر میں کچاقلعہ، پکا قلعہ یہ تاریخ کا حصہ رہا ہے۔" اب اگر ہم بات کریں "لطیف آباد کے تعلیمی اداروں کی لطیف آباد میں یہاں تعلیمی نظام بہت آلہ ہے یہاں کے کے تعلیمی اداروں کے پرنسپل، انچارج،  ہیڈ ماسٹر، پیون بہت ہی اچھے اور حسن سلوک سے پیش آتے ہیں کہ چھوٹے چھوٹے ننے منے بچے اور بڑوں کی اچھی اور درست رہنمائی کرتے ہیں لطیف آباد میں گورنمنٹ اسکولز، کالجز، یونیورسٹیزہونے کے اچھے اثرات یہ ہیں کہ لطیف آباد میں کچھ لوگ ایسے بے بس مجبور لاچار اور پریشان حال ہیں جوکہ تعلیمی اداروں کی فیس اور دیگر اخراجات برداشت نہیں کرسکتے تو اسی کے سبب گورنمنٹ تعلیمی ادارے ہونے سے یہ لوگ وہاں آکے اچھی اعلیٰ تعلیم حاصل کرتے ہیں تعلیم مکمل ہونے کے بعد اچھی نوکری یا اچھا کاروبار کرتے ہیں یہ خود پریشان اور تنگدستی کا سامنا کرکے یہاں تک آئے یہاں ہمارے گورنمنٹ تعلیمی ادارے سے تعلیم حاصل کرکے یہ اپنے گھروں کو سپورٹ کرتے ہیں اور اپنے گھروں کو چلاتے ہیں۔ اور اسی تکلیف، پریشانی، تنگدستی سے باہر نکلتے ہیں اسی کے ساتھ یہ اپنی زندگی ہنسی خوشی گزر بسر کرتے ہیں "اب ہم بات کرتے ہیں " لطیف آباد کے بازاروں اور شاپنگ مالز کی لطیف آباد شہر میں یہاں کے بازار ہر لحاظ سے اور ان بازاروں میں ہر چیز پہننے اوڑھنے، سجنے سنورنے اور یہاں کی خواتین کے ہار سنگھار اور گھر کی دیگر اشیاء بہت اچھی کم پیسوں میں موجود ہوتی ہیں۔ یہ کچھ شاپنگ مالز کا ذکر کریں شاپنگ مالز کے ماحول اور یہاں کی افراء تفریح پے نظر ثانی کریں تو لطیف آباد کے سب ہی مالز کا ہر لحاظ سے ماحول اچھا، پرسکون اور خوشگوار والا ہے۔ میں لطیف آباد کے بہت اچھے اور بڑے بالی ورڈ مال کے اندر کی کہانی بتاؤں تو کچھ یہ ہے کہ بالی ورڈ ماحول بہت صاف و شفاف ہے اور وہاں کوڑا کرکٹ گندگی کا کوئی نام ونشان نہیں۔ یہاں بالی ورڈ مال کے باہر پارکنگ نظام بہت اچھاہے۔ سیکورٹی نظام ہر بات کا خیال رکھنے کیلئے اپنی اپنی حفاظت کیلئے سیکورٹی نظام بہت زبردست ہے۔ اگر آپ کسی آؤٹ لیٹ پر جاتے ہیں تو وہاں کے ڈیلر اور کیشیئر بہت اچھے سے آپ کو پروٹوکول دیتے ہیں۔ وہاں کے ریسیپشننسٹ آپ کا بہت اچھے سے ویلکم کرتے ہیں وہاں جاکے آپ کو اپنے بچوں کیلئے کوئی پریشان نہیں ہونا پڑتا۔ آپ آرام سے خریدو فروخت کرکے وہاں اپنی فیملی کے ساتھ انجوائے کرسکتے اور ساتھ میں فیملی کے کچھ کھاپی سکتے ایسے میں آپ کی خریدی بہت اچھی اور انجوائے منٹ کے ساتھ آرام سے کسی قسم کی فکر کے بغیر ہوتی ہے۔ یہاں بالی ورڈ مال میں ایک ساتھ ہی آپ کو ہر چیز میسر ہوتی ہے۔ "بات کرتے ہیں اب ہم کھیل کے میدان کی "حیدرآباد شہر کے لطیف آباد میں اچھے بڑے صاف ستھرے پرسکون والے ماحول کے دو کھیل کے میدان موجود ہیں -1ایک افضال گراؤنڈ، -2 دوسرا باغ مصطفی گراؤنڈ ان دونوں گراؤنڈوں میں لوگ الگ الگ ایریئے سے سیرو تفریح اور چھوٹے بڑے سب ہی اپنی چھٹی والے دن گھروں سے نکل کے ان کھیلوں کے میدان میں آتے ہیں۔ اپنے الگ الگ کھیلوں کے رنگ بکھیر تے ہیں جس سے وہ خوب لطف اندوز ہوتے ہیں۔ انہی گراؤنڈز میں کافی اچھی بڑی تعداد میں لوگ ورزش کیلئے بھی آتے ہیں ورزش کرکے لوگ اپنے آپ کو سکون اور ٹینشن فری محسوس کرتے ہیں یہاں آکے لوگ ترو تازہ ہوا لے کے اس کھلی فضاء میں بہت اچھا محسوس کرتے ہیں۔ ان سب خوبیوں کی وجہ سے "ہمارا پیارا لطیف آباد "اور دوسرے شہروں سے بہت مختلف اچھے ماحول اور پرسکون والا ہے۔  

Saturday, March 14, 2020

Komal Khan Feature Sindhi 28 Referred back

Too many spelling , grammatical, punctuation, and language mistakes only a few are marked in red. Mind it, this piece is to be published.
Do not send in email msg box, send in attachment
What is its present condition? that is important, otherwise its history can be found in many books. Important is what u are adding in knowledge
There should be quotes, attributions of area people or experts
If visitors quotes they should be properly attributed, like their age, social status, area etc, means their introduction in 4-5 words. Unknown attributions are not acceptable in media, it become hearsay are looks like fake.

Referred back
File again till March 18
ڪومل محمد خان
رول نمبر 28
چوکنڊي قبرستان جوکيو قبيلي جو ھڪ تاريخي قبرستان 

اڄ اسان جنھن جڳھ جي باري ۾ ڄاڙيندا سي  اھا آھي پاڪستان جي صوبي سنڌ ڪراچي اوڀر ۾ 29 ڪلوميٽر 18 ميل پري قائم ٿيل ھڪ خوبصورت قبرستان جيڪو چوکنڊي قبرستان جي نالي سان مشھور آھي يقينن توھان اھيو سوچي رھيا ھوندو ته ھڪ قبرستان بھلا ڪئين خوبصورت ٿي ٿو سگھي پر چوکنڊي قبرستان ڏسڻ کان پوء موکي پورو يقين آھي ته توھانجو اھيو خيال ضرور تبديل ٿي ويندو ڇو جو ھي ايڏو ته خوبصورت آھي جو ڏسڻ وارو ڏسندو ھي رھجي وڃي ھي قبرستان 15 کان  18 ھجري ۾ تعمير ٿيو جڏھن مغل بادشاھت جو دور ھو ۽ اسلام غالب ٿيو  ھي قبرستان جپکيو خاندان جو خانداني قبرستان چورايو ويندو آھي ۽ھتي ڪجھ قبرون بلوچي ماڻھون جون بي آھن
مون بي جڏنھن ھن جڳھ کي ڏٺھو ته ھي ايتري ته خوبصورت آھي جو لڳي ھي نه پيو ته ھي ڪو قبرستان آھي ايئن پيو لڳي ڃڻ مان ڪٿي مثر ۾ پوھچي ويس
ھلو ته پھريان ھي ٿا ڄاڙيو ته آخر جوکيا ھئا ڪير 
جوکيا سمه قبيلي جو ھڪ پاڙو آھي .جيڪو ھاڙي خرد ھڪ قبيلي جي صورت اختيار ڪري ويو آھي.ھي راجپوت نسل سان تعلق رکندڙ آھن.
مرزا قليچ بيگ ۽ ٻين لکيو آھي ته ھو موجوده سنڌ ۾ مڪران جي طرف کان آيا  ھي حقيقت ۾ بلوچستان جي ايراضي جا مالڪ ھئا.حقيقت اھا آھي ته جڏنھن لسي ٻلي ۾ گھڙو ويڙھ پ وڌي ويو ته اتان نڪري ملير ڪراچي اچي پھتا جتي نومڙين ۽ ڪلمتين جي راڄ ھو.ھو مڙسي سان انھن کي بي دخل ڪري پنھنجا پير ڄمائي ويا.
مرزا قليچ بيگ لکيو آھي ته ھي ماڻھو لاڙ ۾ اچي رھيا ۽ ٻن سون چوري ۽ ڦرمار تي گزربسر ڪندا رھيا.
مسٽر فريئر جو بيان آھي ته جوکيا اصل ۾ راجپوت آھن اھي پھريان شاھ بلاول جي اتر ۾ رھندا ھئا جتان حب جي ماٿري ۾ پھتا ۽ پوء حب ندي ۽ نئين ملير جي وچ واري علائقي ۾ پکڙجي ويا.
جوکيا بابت اسان کي تاريکي حوالو تحفته الڪرام ۾ ملي ٿو,جنھن ۾ لکيل آھي ته 1160 ھجري مطابق 1747ع نادر شاھ جي قتل کان پوء ڌارتي جي راڻي جي چرچ تي ھڪ سئو جابلو ويڙھاڪ ٺٽي جي پس گردائي کي ڦرڻ لا آيا جن کي منھن ڏيڻ لاء ٺٽو جو حاڪم مسو فقير سامٽيو,شيخ شڪر الله ۽ بولا خان نومڙيو  ھزارين ماڻھن جو لشڪر وٺي انھن جي سامھون ٿيا پر ھو ھنن جي اڳيا شڪست کائي ويا
محترم غلام محمح لاکو ڪلھوڙو دور ۾ لکيو آھي ته دن 1182 ھجري مطابق 1768ع ۾ نومڙين جي سڪار گھڙي لشڪر سان بچار جو ڪيو تي حملو ڪيو,بچارجو ڪيو بچاء لا ٺٽي بڳو,نومڙيا بي ٺٽي طرف ڪاھ ڪئي  جڏھن  ميان غلام شاھ کي اھڙو اطلاع مليو ته ھن ٺٽي جي بچاء لاء ته ھن چھ ھزار فوجي ٺٽي جي بچاء۽ نومڙين جي تاديب لاء موڪلڻ جو حڪم ڏنو 
جھيڙي جي خاتمي کان پوء ٻه ھزار لشڪرمستقل طور ٺٽي ۾ رکيو ويو 
معلوم ٿئي ٿو ته انھي ويڙھ جو خاتمو ائين ٿيو جو جوکيا ۽ نومڙياانھن قادلن جي گڏجي حفاظت ڪندا ھئا ۽ محصول ۾ ڀائوار ھئا بھر صورت غلام شاھ ڪلھوڙو جي دور ۾ جوکين جي وڏي عزت ۽ حيثيت ۽ اھميت ھئي جنھن ڪري 1843ع ۾ جوکيو سردار ڄام مھر علي ٽالپورن جي مدد ڪرڻ بدران انگريزن جو ساتھ ڏنو جنھن ڪري کيس مرتبي ۽ لقب سميت جاگير ڏني وئي 
ھنن جو مينگلين,گچکن ۽ برفتن سان مٽيون مائٽيون آھن,حب کان وٺي گھگا ڦاٽڪ تائين ھنن جو راڄ ھو 
جوکيا ھڪ قبيلو ۽ زات آُھي پر ٻين ڪيترن قبيلن ۾ پڻ پاڙو جوکيو آھي

ھاڻي واپس ٿا اچون جٿي اسان جي ڳالھ ادھوري رھجي وئي ھئي 

مقبرن جي تعمير لاء خاص پٿرن جو اسعمال ڪيو ويو آھي  ھن کي ٺاھڻ وارا عام طور تي سنڌي آھن  ۽ ھي جڳھ خاص ھم ڪري به آھي ڇو جو ھن طرح جو آرڪيٽيڪچر دنيا ۾ ٻيو ڪٿي بي نه آھي 
چوکنڊي قبرستان 600 سال کان وڌيڪ پراڙو قبستان آھي  جنھن ۾ 625 مزار ۽ قبرون رومي نقشو نگار جي ٺھيل عمده مثالون آھن  چوکنڊي جي لغوي معني چار ڪونن جي آھي ھتي ٺھيل قبرون چار ڪونن تي مشتمل آھن يعني چورس شڪل ۾ ٺھيل آھن 

ھ ن افرا تفري واري زندگي ۾ جٿي سڪون جو ھڪ لمحو بي نه آھي ھتي چوکنڊي قبرستان ھڪ اھڙي جڳھ آھي جٿي انسان ڪجھ ڪلاڪ سڪون سان ويھي خوبصورت ھتان نظارن سان دلي سڪون ٿو حآصل ڪري سگھي 
روز مره جي زندگي ۾ مشغول ٿي انسان اھيو وساري ويھندو آھيون ته ھن کي ھڪ ڏينھن فنا آھي ھن کي ڇا دنيا کي ئي فنا آھي  پر اھيو احساس تڏھن جاڳندو آھي جڏنھن ماڻھو قبرستان جو رخ ڪندو آھي ھن کي پنھنجي حقيقي منزل نظر ايندي آھي ته زندگي جو سفر ھڪ ڏينھن ختم ٿي ويندو ۽ منزل اھيا  ھي آھي 

ڪراچي جيڪو ھڪ مصروف ترين شھر آھي جنھن جو بيشتر علسئقو نئي آبادي تي مشتمل آھي  اتي ئي ھن شھر ۾ ھڪ اھڙو علاقو بي آھي جيڪو چوکنڊي قبرستان جي نالي سان سڄاڙيو ويندو آھي ھتي ڪجھ اھڙيون آثاري قديمه ڏسڻ لاء اسان چوکنڊي قبرستان پھتا سي 
گھڙو ڪري ماڻھو آثاري قديمه ڏسڻ لاء اندروني سنڌ جو رخ ڪندا آھن  پر ھتي ڪراچي ۾ ھي يعني پاڪستان جو سڀ کان وڏي شھر ۾ ھڪ اھڙي جڳھ موجود آھي جٿي وڃي توھان ائين محسوس ڪندو ڃڻ پوراڻي وقت ۾ پوھچي آھيو

ھي قبرستان پندھروي صدي ۾ جوکيو قبيلي جي ماڻھن ٺھايو ۽ ھن قبيلي ۾ جوکيو قبيلي جو سردار ۽ ٻيا ماڻھو دفن آھن ھي قبرستان ٻين قبرستانن کان مختلف ھن ڪري آھي ڇو جو  ُھتان جون قبرون عام قبرن وانگر نه آھن  ھنن تي ڪجھ خاص قسم جي ڪاريگري ٿيل آھي  ھن زماني جي ڪاريگري جنھن زماني ۾ مشين جو ڪو تصور بي نه ھو 

ھتي جيڪي قبرون آھن انھن تي الگ الگ قسم جي ڪاريگري ٿيل آھي اگر سردار جي قبر آھي ته ھن تي پڳڙيون ٺھيل آھن ۽ اگر عورت جي قبر آھي ته ھن تي زيورات ٺھيل آھن ۽ ان جي قبيلي جو نالو لکيل آھي ھي ھڪ ٻي قبر آھي جنھن تي تلوارون ٺھيل آھن اھيا قبر ھڪ مرد جي آھي  
ھلو قبرستا جي باري ۾ ته قافي شيون ڄاڙي ڇڏيون سي پر منھنجو خيال اھيو آھي ته ھن قبرستان جي باري ۾ ڄاڙيون گھٽ آھي ڇو جو ھي ايڏو خوبصورت آھي  ھن جي جيڏي به تعريف ڪيون گھٽ آھي  موکي ته ھتي اچي ڏاڊھو سٺو لڳو ۽ سڪون مليو ھڪ اھڙو نظارو جيڪو اکھين کي سڪون ڏيندو آھي 

مون ڪجھ ٻين ماڻھن جي بي رائي معلوم ڪئي ته ھنن کي چوکنڊي قبرستان اچي ڪئين محسوس ٿيو 
ھڪ وزيٽر جو چوڻ ھو ته ھن کي ھتي اچي ڏاڊھو سٺو محسوس ٿيو ھي جڳھ مغل بادشاھت جي دور کان ٺھيل آھي پر ھن کي ڏسي ائين محسوس ٿيندو آھي ڄڻ اھيا ڪجھ سال پھريان ھي ٺاھي وئي ھجي ۽ حيرت جي ڳالھ ته اھيا آھي ته ھي الاھي ڪيتري سو سان پراڻي آھي  ۽ ھي جڳھ گھمڻ جي لحاظ سان ڪافي محفوظ آھي توھان بي فڪر ٿي ھتي گھمڻ اچي ٿا سگھو 

ٻيي وزيٽر جو چوڻ ھو ته ھتان جو آرڪيٽچر ڏاڊھو خوبصورت آھي ۽ ھتان جيڪي ڪيرٽيڪر آھن جيڪي ھتان جو خيال رکن ٿا اھي سنڌي ۽ اردو کان الاوه انگريزي بي ڳلاھئي ويندا آھن ۽ھر قبر الاھي خوبصوري سان ٺھيل آھي ۽ ھر قبر تي ان جي سردار جو نالو ۽ مرڻ جي وجه لکيل آھي 

ھڪ ڳالھ ته ٿوھان کي ٻدھائڻ وسري ويم جيڪا چوکنڊي قبرستان جي باري ۾ ڪافي مشھور آھي ته ھي جڳھ پراسرار واقين سان مشھور آھي مون کي ھن قسم جي ڳلھين ۾ الاھي دلچسپي آھي ھن ڪري مو کي ھن جڳھ ۾ اڃان بي دلچسپي پيدا ٿي 
چون ٿا تي ھي جڳھ آصيب ذ
زاده آھي  ڪجھ ماڻھن جو چوڻ  ھو ته توھان کي اگر چوکنڊي قبرستان وڃڙو آھي ته احتيات سان وڃو ائين بي ٿي سگھي ٿو ته توھان تي جن ھي نه چمبڙي وڃي ۽ڪجھ ماڻھن جو چوڻ آھي ته رات جو ھتان شور جون آوازون اينديون آھن ۽ قبرون گرم ٿي وينديون آھن پر جڏھن اسان چوکنڊي قبرستان جي انتظاميان  کان پوچھيو ته ڇا ھي واقعي سچ آھي ته ھنن چيو ھي سڄيون خبرون ڪوڙون آھن ۽ اھڙو ڪجھ بي نه آھي,ھاڻي وڌيڪ الله کي خبر ته ھنن سچ چيو يا ڪوڙ 

ھنو ته قبرستان اچڻ جو مقسد پنھنجي موي کي ياد ڪرڻ ھوندو آھي پر جڏھن اسان ھتي آيا سي ۽جنھن طرح جي خوبصورر ڪاريگري ھتي ٿيل آھي ھن مان معلوم ٿئي ٿو ته ھن زماني جا ماڻھو پنھنجي وڏن جي لا ھنن جي نظر ۾ ڪيڏو مرطبو ھئو ۽آنھن جي عزت ڪنھن قدر خوبصورت ڪاريگري ڪري ھنن قبرون ٺاھيون 
ھر قوم جو يان ھر زماني جو پنھنجو ھڪ رواج ھلندو آيو آھي جنھن تي ماڻھن عمل ڪيو آھي 

توھان بي پنھنجي مصوروف زندگي مان ڪجھ ڳقت ڪڊھي ضرور ھن خوبصورت جڳھ کي وزٽ ڪيو موکي يقين آھي يه تواھان دلي سڪون محسوس ڪندو.

Thursday, March 12, 2020

Sarfaraz Noor- Feature- Urdu MA 50

Not reporting based 
Avoid English words 

Feature-Sarfaraz Noor-MA- Roll 50-Urdu
سینڈس پٹ ساحل کراچی
سرفراز نور
شہر کراچی کو پاکستان کے دوسرے شہروں سے منفرداور لاثانی بنانے میں ساحل سمندر کا کردار سب سے زیادہ نمایاں رہا ہے۔جہاں یہ شہر جدید طرز زندگی اور بڑی بڑی صنعتوں کے قیام سے آلودہ اور غیر شفاف ہو چکا ہے،وہاں کراچی کے ساحل سمندر کچھ دیر کے لئے ہی سہی لوگوں کو پر فضا، شفاف اور متین ہوا میں سانس لینے کا موقع فراہم کرتاہے۔ یوں تو کراچی ساحل سمندر کی خوبصورتی سے مالامال ہے جن میں ہاکس بے، فرینچ بیچ، کلفٹن بیچ کے نام قابل ذکر ہیں لیکن شہر سے لگ بھگ25  کلومیٹرکی مسافت پر واقع سینڈس پٹ بعچ اپنے صاف شفاف نیلے رنگ کے غیر آلودہ پانی، کرکری ریت، پر فضا حلیم اور متانت سے بھر پور ماحول کی وجہ سے، دور دراز سے آنے ولے سیاحوں کو اپنے حسن و جمال کے باعث موہت کرنے میں سبقت لے چکا ہے۔
پاکستان کے جنوب مغرب میں واقع مشہور سیاحتی مقام سینڈس پٹ بیچ کے لئے جب آپ کراچی کے مختلف راستوں سے گزرتے ہوئے ماڑی پورپہنچتے ہیں تو وہاں سے سینڈس پٹ کی حدود شروع ہوتی ہیں، جہاں سے صرف 3  سے 4 کلومیٹر کی مختصر سی دوری پر ایک تخیلاتی اور پرفتن بحری سیاح گاہ آپ کی منتظر ہوگی۔بے ترتیب اور پر شور زندگی سے تنگ لوگ جب سینڈس پٹ کی ٹھنڈی ریت پر پاؤں رکھتے اور سمندری ہواؤں کو اپنی سانسوں میں بھرتے ہیں تو ازسرنو اپنی رکی ہوئی زندگی کو متحرک پاتے ہیں۔سینڈس پٹ کا شہری سیویریج اوردھویں کی آلودگی سے پاک  صاف شفا ف اتھرا ہوا پانی تیراکی اور غسل سورج "Sun bathing" کے لئے بہترین ہے۔علاقے کی غیر معمولی پتھریلی اور ریتی زمین پر گھوڑوں اور اونٹوں کی سواریاں، لوگوں کے لئے تفریح اور ماہگیروں کے لئے ذریعہ معاش کے بہترین اسباب ہیں۔
سینڈس پٹ کا نام دراصل سردیوں کے موسم میں ریت پر بننے والے ان گڑھون کی وجہ سے رکھا گیا ہے جہاں کچھوے اپنے انڈے دیتے ہیں،جو کہ ریت پر باآسانی دیکھے جاسکتے ہیں۔ہرے کچھوے کی معدوم اقسام کو محفوظ کرنے کے غرض سے اور جنگلی حیات "Wildlife" کا شعور اجاگر کرنے کے لئے WWF ورلڈ وائلڈ لائف فنڈکی طرف سے بیچ پر ویٹ لینڈ سینٹر قائم کئے گئے ہیں، تاکہ سمندری جیو جیسے کچھوے، کیکڑے اور طحالب "Sacchrum Spontneum Plant" کو محفوظ کیا جاسکے۔
اکتوبر سے مارچ تک سینڈس پٹ بہت ہی پر سکون ہوتا ہے اور یہاں ان دنوں میں لوگ شاذونادر ہی بیچ پر نظر آئینگے ماسوائے ماہیگیروں اور دوسرے صوبوں یا دوردراز کے علاقون سے آئے ہوئے لوگ، تاہم مارچ کے بعد اور مون سون کے موسم میں سمندر کاجوش دیکھنے لائق ہوتا ہے۔
سینڈس پٹ آنے والے لوگ اپنے لئے کُٹیا "Hut/Cottage" پہلے سے ہی بُک کروالیتے ہیں،بہرحال کچھ لوگ عین وقت پر ہی کُٹیا بُک کرنے کو ترجیع دیتے ہیں،بقول ان کے، ہٹ کی پری بکنگ پر زیادہ پیسوں کی بے وجہ لاگت آتی ہے۔کُٹیا کے نرخ موسم سرما میں کم  جبکہ گرمی اور مون سُون کے دنوں میں یہ قیمتیں آسمان کو چھوتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔سینڈس پٹ میں دیئے جانے والے Huts صرف فیملیزاور کارپوریٹ پروگرام کے لئے مخصوص ہیں جن میں روزمرہ کی ضروریات زندگی کی ہر چیز میسر ملتی ہے، گھومنے آئے ہوئے لوگ کھانا اور چائے وغیرہ بناتے ہوئے گھر جیسے ماحول میں بیٹھ کر فطرت کی قربت سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔علاوہ ازیں ضرورت پڑنے پر آرڈر پر مختلف طعام جن میں بار بی کیو اور دیگر روایتی کھانے بھی تیار کئے جاتے ہیں۔ٹھنڈی ٹھنڈی پُر عزم ہواؤں کے مسحورکن شور میں لوگ اپنے ہٹ میں بیٹھ کر لوگ جب اپنا کھانا تناول کرتے ہیں تو سمندر کی موجیں بھی ان کے ساتھ خوشی سے جھومتی محسوس ہوتی ہیں۔سینڈس پٹ کے Huts اپنے دوستوں یا کنبہ کے ساتھ پکنک، شادی یا پارٹی کے لمحات سے لطف لیتے ہوئے ساحل سمندر کے پوشیدہ خزانووں کو دریافت کرنے کے بہترین مواقع فراہم کرتے ہیں۔دن بھر نہاتے، ساحل پر ریت کے محل بناتے، سیپیاں جمع کرتے، دوست احباب کے ساتھ قہقہے لگاتے، موجوں کے پر جوش شور میں خاموشی سے ناتہ توڑتے ہوئے یہاں آنے والے اپنے اندر ان گنت یادیں سمیٹ کر جاتے ہیں۔
شام کی چائے پیتے ہوئے Huts کے وسیع ٹیرس سے غروب آفتاب کا دلفریب نظارہ بھی قابل دید ہوتاہے، ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے فلک پر گہرے سرخ رنگ کی چادر اوڑھے کوئی آسمانی پری، شفق کے دیدہ زیب رنگوں میں پر پھیلائے، آنے والی اندھیری رات کا اشارہ دیتے ہوئے، پورا دن ساتھ گزارنے والے سیاحوں کو خیرباد کہہ رہی ہو۔زندگی کا سفر بھی سمندر جیسا ہوتا ہے جہاں ہر لمحے ایک کے بعد دوسری لہرآتی ہے لیکن زندگی کا کاروان لہروں کے آنے جانے سے رکتا نہیں۔ 

Saira Chandio Feature Sindhi MMC 47

To be checked

فيچر ٽاڪ حيدرآباد بليورڊ مال
سائرء چانڊيو رول نمبر 47
اسان جي سنڌ ته ھونھن تمام گھڻي خوبصورت آھي. جنھن جي سونھن ڀٽائي گھوٽ به پنھنجي انمول لفظن
۾ پڻ گائي آھي. ھن سنڌ ۾ حيدرآباد شھر تمام گھڻي اھميت رکندڙ شھر پڻ آھي. حيدرآباد شھر جيڪو
آبادي جي لحاظ سان به تمام گھڻي اھميت رکي ٿو ھونھن ته حيدرآباد شھر ۾ دڪانن ، بازارين ۽ ٻين
ڪيترين ئي شين جي ڪري به مشھور شھر آھي. ان جي حساب سان 2014 ۾ ٺھندڙ بليورڊ مال جنھن کي
ٺھڻ ۾ ته گھڻو عرصو ناھي لڳو پر 2014 ۾ فتح گروپ پاران ٺھندڙ بليورڊ مال جئين ٺھيو ته شروعاتي
ڏينھن ۾ ھن ۾ سؤ جي تعداد ۾ ماڻھن اچڻ شروع ڪري ڇڏيو ھو. اڃا ته ھن مال جو ڪم به شروع نه ٿيو
ھو ته ماڻھن ھن مال ۾ اچڻ شروع ڪري ڇڏيو ھو ۽ ھاڻ 2020 جي تحت ھن مال کي ڇھـ سال ٿي ويا
آھن. ۽ ھي بليورڊ مال ٺھي تيار ٿي ويو آھي. ھي بليورڊ مال ڪافي اھميت رکي پيو ھاڻي ھن ۾ گھٽ ۾
گھٽ ھزارن جي تعداد ۾ ماڻھن اچڻ شروع ڪري ڇڏيو آھي. بليورڊ مال جيڪو تمام خوبصورت ھجڻ
جي ڪري بـ ماڻھن ھن کي پسند ڪيو آھي. نه صرف خوبصورت پر سؤ ايڪڙن جي زمين تي مشتمل
ھي بليورڊ مال جنھن ۾ اندر تمام خوبصورتي سان ٺھيل دڪان ،اسٽال پڻ موجود آھن. ھنن دوڪانن ۾
کاڌو روز مره جو سامان شاپنگ لاء وڏا وڏا دوڪان مثلن: گل احمد ، الڪرم ، بوننذا ، خادي اٿھنڪ ،
سفائير آئوٽ فيٽر، بريڪ آئوٽ، ليجنس، ڊائنرز اسٽائيلو، مني سو.۽کاڌي جي لحاظ سان ڪي ايف سي ،
ميڪ ڊونلز، چاچا پيرو، ڊومينوز، او پي ٽي پي جھڙن دوڪانن سان گڏو گڏ ٻارن جي لاء فن لينڊ پڻ
رکيو ويو آھي جنھن ۾ ٻارن جي حساب سان ان ۾ جھولا پڻ موجود آھن. اھو فن لينڊ خاص ڪري ٻارن
جي صحت مطابق رکيو ويو آھي. ان سان گڏوگڏ ھن ۾ اندر سنيما پڻ موجود آھي. جيڪا سيڪيورٽي جي
حساب سان محفوظ رکي وئي آھي. ھي بليورڊ مال نه صرف شاپنگ پر گھمڻ جي لحاظ سان به تمام
خوبصورت آھي. جيڪي ماڻھو شاپنگ نه ٿا ڪن اھي ماڻھو ھتي اچي گھمن ٿا ھي بليورڊ مال جيڪو
ماڻھن جي لاء ھڪ فن جو بائث آھي ته ٻي طرف ھيٺين طبقي جي ماڻھن لاء مايوسي جو مرڪز پڻ آھي.
ھن مال ۾ ايندڙ ھر ماڻھون ھڪ جھڙو نه آھي. ھن ۾ ايندڙ مٿئين طبقي جي ماڻھن جو اھو چوڻ ھو ته ھي
مال ھنن جي روز مره جي زندگي ۾ اھميت رکي ٿو ۽ ٻئي طرف ھيٺين طبقي جي ماڻھن لاء ھي صرف
ھڪ ان شوپيز جيان آھي. جنھن کي ھو صرف ڏسي سگھن ٿا پر ھٿ نه ٿا لاھي سگھن. پر اسان جو
سماج اھڙن جاين کي ڪافي اھميت ڏي ٿو. ان مال ۾ اندر ھر ماڻھن جو اھو به چوڻ ھو ته حيدرآباد ۾
پھريو ڀيرو اھڙو شاپنگ مال ٺھيو آھي. اسان کي ھتي اچي جام مزو ٿو اچي اسان حيدرآباد ۾ پھريان
اھڙي سينيما ناھي ڏٺي اھا سينيما اسان ھتي ڏٺي آھي. اسان کي ھتي فلم ڏسڻ جو موقعو ٿو ملي. اسان کي
اھڙن مالن ۾ گھمڻ مال نه صرف شاپنگ جي پر بزنس جي لحاظ سان به وڏي اھميت رکي ٿو.۽ ھن مال ۾
ھر ڏينھن به ملايو وندو آھي پوئي چاھي عيد ھجي يا وري مدر ڊي اھڙا ننڊا وڏا ڏينھن ھتي ملايا وندا
آھن. انن ڏينھن تي به ھن مال ۾ ڪافي رش ھوندي آھي پوئي چاھي حيدرآباد ھجي يا ان جي ڀر پاسي
وارا علائقن جا ماڻھو ھوجن اھي ھتي اچي اھو ڏينھن ملائن ٿا. ھتي نه صرف عام ماڻھو پر ٽي وي تي
ايندڙ اداڪار به ھن مال ۾ آيل آھن. ان ڏينھن تي به ھن مال ۾ ڪافي رش ھوندي آھي. جيئي ماڻھن کي
خبر پوندي آھي. ته جنھن کي ھو صرف ٽي وي تي ھي ڏسي ٿا سگھن. پر انن کي سامھون ڏسي ھتي جا
ماڻھو تمام خوش ٿيندا آھن.اھو به ھن بليورڊ مال جي ڪري ئي ممڪن آھي ڇو ته ھن مال جي

سيڪيورٽي جي ڪري وڏا اداڪار ھتي اچن ٿا ۽ ھتي جي ماڻھن کي انٽر ٽين ٿا ڪن. ۽ ان ڪري ھي
مال پنھنجو نالو روشن ڪري رھيو آھي. ۽ اڳيا به حيدرآباد ۾ پنھنجو نالو روشن ڪندو رھندو.



The practical work is carried under supervision of Sohail Sangi, 
at Media and Communication Department, University of Sindh

Not reporting based
Not in feature style, it is in article style 
No paragraphing
Spelling mistakes
Fotos will be required
Referred back
While ur topic was approved, ur were asked to follow these points:
Bollywood Mall can be. it should be reporting based and written in interesting manner. Not in article style.
Ur observation scenario, talk to related people. 
What is impact of this mall, this should be the theme



فيچر  حيدرآباد بليورڊ مال
سائرا چانڊيو اول نمبر 47
حيدرآباد شهر هونئين ته تاريخي لحاظ کان هر حوالي سان پنهنجي هڪ الڳ سڃاڻپ رکي ٿو. پر نئن دور جي واپار توڙي سيرو تفريح جي حوالي سان به هاڻي ان کي وڏي اهميت ڏني وڃي پئي. جديد دور جي حوالي سان سڄي ملڪ جيان حيدرآباد ۾ به وڏا وڏا اهم واپاري هن شهر کي نوان پراجيڪٽ ڏئي رهيا آهن. جنهن ۾ حيدرآباد ۾ پهريون ڀيرو فتح گروپ پاران 2014 ٺهي تيار ٿيو هتان جي شهرين لاءِ بليورڊ مال جي نالي سان ٺهرايل شاپنگ سينٽر جيڪو تمام وڏو ۽ خوبصورت اهميت جو باعث بڻيل آهي. بليورڊ مال جنهن ۾ خريداري جي هر شيءَ سان گڏوگڏ کاڌي جا سهڻا دڪان اسٽال لڳايا ويا آهن. هي شاپنگ مال فتح گروپ جيڪو حيدرآباد جي وڏي ۾ وڏو گروپ جي سوچ مطابق 2014 جي ڊسمبر واري مهيني ۾ حيدرآباد فتح چوڪ تي ٺهي تيار ٿيو جنهن ٺهيو ته هن شاپنگ مال ماڻهن کي شوڪ ڏئي ڇڏيو ڇو ته حيدرآباد ۾ هوئين ته کاڌي جي لحاظ ۽ شاپنگ جي لحاظ کان ڪا ڪمي ته نه هئي. پر هڪ ئي جائي تي فن، شاپنگ، کاڌو ۽ گهريلو سامان سان گڏوگڏ ٻارن جي ڪافي تفريح ملڻ جو ته هي پهريو ئي موقعو مليو آهي. اڄ اگر هن شاپنگ مال تي نظر وهجو ته هي ڪافي شهورت ماڻي رهيو آهي. هن ۾ اندر شاپنگ جا دڪان جيئن گل احمد، الڪرم بونڌا، خادي، اٿنڪ، سفائير، آئوٽ فٽر، بريڪ آئوٽ، ليجنس، ڊائنرز، اسٽائيلو، مني سو ۽ کاڌي جي لحاظ کان ڪي،ايف،سي ميڪ ڊونلز، چاچا پيرو، ڊومينوز او پي ٽي ڀي، اهڙي خوبصورت دوڪانن ماڻهن جو ڌيان مٽائي پنهنجي طرف ڪيو آهي. اهڙو چمڪندڙ دڪان ۽ شاپنگ مال ڏسي جائي نه پر حيدرآباد ڀهر پاسي وارن ماڻهن به هن مال ۾ اچڻ شروع ڪري ڇڏيو آهي. پو چاهي شادي هجي يا وري ڪنهن جي ڄمڻ جو ڏينهن هجي ته هي ماڻهو ٻئي ڪنهن جائي تي وڃڻ جي بجائي هو هن مال ۾ اچي ملائڻ ٿا ۽ شادي جي لحاظ سان ماڻهو شاپنگ جي لاءِ ئي به هن مال ۾ اچڻ پسند ٿا ڪن.
جيئن ته هن شاپنگ مال ۾ ايندڙ هر ماڻهو ته شاپنگ نه ٿو ڪري پر اهو ان شاپنگ مال ۾ اچڻ کي ئي پنهنجي خوشنصيبي ٿو سمجهي اهو ماڻهو پنهنجي سوچ کي عالت ٿو ڪري وجهي ۽ ان ڪري ڪيترائي خاندان هتي اچن ٿا. هن مال ۾ ٻيون به گهڻيوئي خاسيتيون آهن ته ٻارن جي لاءِ جيڪو فن لينڊ رکيو ويو آهي اهو انهن جي صحت مطابق رکيو ويو آهي ۽ فن جي لحاظ کان به ڪافي بهتر آهي. نئي دور جي هن مال ۾ ريل گاڏي ۽ ٻين ڪيترن ئي جديد ترين جهولن ۾ چهڙي مزور ٿا ماڻن ۽ خاص ڪري وڏا ۽ ننڍا ٻار هن مال ۾ رکيل پاڻهن هلندڙ چاڙهي تان به لهڻ ۽ چهڻ جو به مزو ٿا ماڻن پر نه صرف ٻار پر مال ۾ ايندڙ وڏا به هن هڙن تان لهي چهڻي خوش ٿا ٿين. کاڌي جي لحاظ کان ڪي،ايف،سي ۽ ميڪ ڊونلز ۽ چاچا پيرو جا دڪان پڻ آحن. جيڪي ماڻهو ڪي،ايف،سي جهڙي مانهگي دوڪان يا وري ميڪ ڊونلز جو کاڌو نه کائن ته اتي ماڻهو چاچا پيرو جهڙي سستي دوڪان جو کاڌو ٿا کائين جيڪو ڪي،ايف،سي جي برگر کان ته سستو آهي. پر چاچا پيرو جي اها ئي سئو واري ٿالهي ڪافي مزيدار آهي. ان سان گڏوگڏ هن شاپنگ مال ۾ اندر سنيما به موجود آهي. جتي فمليون پنهنجي گهروارن ۽ ٻارن سان گڏ هر ٻي ڏينهن يا وري هر عيد تي اچي فلم ڏسي پنهنجي ذهنيت کي وڌائين ٿا. انگلش فلم سان گڏوگڏ ٻارن جي لاءِ ڪارون واريون فلمون به رکيل آهن. هتي ٻار پنهنجي پسند جون اهي فلمون وڏي اسڪرين تي ڏسي ڪافي خوش ٿيندا آهن. هوئين ته حيدرآباد ۾ سنيما موجود هيون پر اهڙي جديد ترين سنيما هن مال ۾ اندر آهي جتي ڪئي خاندان هن سنيما ۾ فلم ڏسي خوش ٿا ٿين. جيڪا سيڪيورٽي جي تحت ڪافي محفوظ آهي. اگر هن جديد نئي دور ۾ ڏٺو وڃي ته بليورڊ مال ان ڪمي کي به پورو ڪيو آهي بليورڊ مال ۾ موجود سنيما ۾ ايندڙ هر ماڻهو وڏي شوق سان فلم ڏسي ٿو ۽ پنهنجي خاندان سميت اتي دلچسپ ڪرسين تي ويهي فلم جو مزو ٿو ماڻي. هي مال سيڪيورٽي جي لحاظ کان ايترو ته محفوظ آهي جو نه رگو عام ماڻهو پر ٽي وي ۾ ايندڙ اداڪار به اچي چوڪا جيئن ته هن مال جي سيڪيورٽي جا تحت ئي اچن ٿا ۽ ان مال ۾ ايندڙ يا موجود ماڻهن پنهنجي آمهون سامهون هجڻ جو احساس ۽ خوشي ٿا ڏيڻ ان ئي ڪري هي مال پهريون دفعو هوجڻ ۽ هڪ وڏي واپار جي لحاظ کان به شوحرت ماڻي رهيو آهي.

Rabia Jalies -Feature English 44



 To be checked

Feature

 

Rabia Jalies -Feature English 44

Visiting the Pakistan Air Force Museum, Karachi


Most karachi citie know about and have visited the Pakistan Air Force (PAF) Museum that’s located conveniently on Shahrah-e-Faisal at least once, but if you’re new to Karachi, a trip to the Pakistan Air Force Museum is a must. Along with the Pakistan Maritime Museum on Karsaz, the PAF Museum is among the must-visit museums in Karachi. Let’s learn more about what’s you’ll get to witness when you spend a day at the Pakistan Air Force Museum with your family or friends.

ABOUT THE PAF MUSEUM

Pakistan’s Air Force plays a major role in keeping Pakistan protected and allowing us to enjoy nights after nights of peaceful sleep, and this museum is all about paying tribute to the new and old heroes that have laid down their lives for the nation. The museum also hosts a number of aircraft, some captured from the enemy, and others that are retired from service. These fighter planes are mainly on display in the open-air museum within the park, but some are protected within the hangar that serves as the Archives Gallery for the museum.
Located next to the PAF Base Faisal on the busiest road of the city, the Pakistan Air Force Museum was formally inaugurated on the 14th of August in 1997 by the then Air Cheif Marshall, Abbas Khattak, who was the Chief of the Air Staff at the time. The museum was then opened for the public in October of the same year. Around 30 aircraft are on display here, and more exhibits are added periodically to keep the museum updated. Historic photographs and paintings depicting the feats of the Pakistan Air Force also decorate the indoor galleries.

GALLERIES AND EXHIBITS AT THE PAF MUSEUM

While taking a trip to the Pakistan Air Force Museum, here are some of the exhibits and galleries that you should not miss:

ARCHIVES GALLERY

See the Historic Fights Jets for Yourself Inside the Hangar
Located in a hangar on-site, the Archives Gallery is the most famous because it contains the Viking, which was Quaid-e-Azam Muhammad Ali Jinnah’s aircraft. The aircraft is open for visitors, and you can tour the interior and see how the Founder of the Nation travelled in style, nearly 70 years ago. An Indian Gnat that force-landed at Pasroor during the 1965 war is also on display here. The Archives Gallery is also home to six sub-galleries. These include:
History of Aerial Warfare (up to the modern times)
1.            Fighter Jets from around the World
2.            Shauhada of the 1965 and 1971 Wars
3.            Heroes from the 1965 and 1971 Wars
4.            Achievements of Different Air Force Squadrons
5.            Achievements & History of PAF Bases
The last two of these galleries are open galleries, part of the central display hall where the Viking has its place of prominence.

EXHIBITS ON DISPLAY

The Open-Air Park is Home to Most of the Exhibits
Some of the planes on display at the PAF Museum include:
6.            F-86 Sabre
7.            Antonov An-12
8.            F-104 Starfighter
9.            MFI-17 (Mushshak)
10.          Shenyang F-6
11.          FT-6
12.          Mirage III
13.          U-Mig15
14.          Aero Commander
15.          T-33
16.          Huskie (Helicopter)
17.          Beech D-95A (Travel Air)
18.          T-6G (Harvard)
The most recent addition to the exhibits is a statue of the Indian Air Force’s Wing Commander Abhinandan Varthaman, along with parts of his Mig-21 aircraft, which was shot down near the Pakistan-Indian border.

FACILITIES AT THE PAKISTAN AIR FORCE MUSEUM

Enjoy the Rides at Play Land, PAF Museum
It’s not all history and no play at the PAF Museum. The grounds are also home to a Play Land, where rides of different types are available for children of all ages, along with food stalls. You can also enjoy a tasty meal at the outdoor cafeteria and take back home some toys and miniature aircraft replicas from the Souvenir Shop.
Along with hosting small festivals, the Pakistan Air Force Museum also contains a Convention Centre that is available for hire for small private events. Don’t forget to visit the Pakistan Air Force Women Association (PAFWA) Shop during your trip to the Pakistan Air Force Museum. PAFWA is a welfare organisation that works towards the provision of education, financial, and social aid for low-paid employees of the PAF, along with participating in relief work after natural calamities like floods or earthquakes. The PAFWA Shop contains a lot of handicrafts and artefacts that can make great gifts for your loved ones and will help you donate money to a good cause.

TIMINGS AND TICKET PRICES FOR THE PAF MUSEUM

Tickets Can be Bought at the Gate
The PAF Museum is open for the public daily, from 9 am to 9 pm, with the ticket price being PKR 60 per person (ages 3 and above). People from military families and students with ID cards are charged PKR 40 for admission into the park. Children under 3 years of age and senior citizens above 60 years of age are allowed to enter the premises free of charge. 
A separate parking fee is applicable to your vehicle. All cars, jeeps, and vans, must pay a parking fee of PKR 50 per vehicle, while the parking fee for motorcycles is PKR 30. Buses and coasters will have to pay a parking fee of PKR 200 upon admission.
Around 4,000 people visit the museum during the weekdays, while 15,000 individuals head towards the park on the weekends. Many schools also plan their tours to the park throughout the year.


Muhammad Hassan Shaikh Feature Sindhi MMC 35 Referred back



 First para is extra and irrelevant
Not reporting based no primary data and source mentioned
Observation, proper quotes and attributions are missing
 Many spelling mistakes 
Feature is to show, to paint a scenario 
How people come to visit their relative inmates? Attitude of jail staff etc
No human angle, No of prisoners?
Foto will be requied 
Referred back
مُحمد حسن شيخ
فيچر سنڌي
ناراجيل
ايم اي پرئيويس رول نمبر # 35
سونهري سنڌ جي شهر حيدرآباد جو نظارو ئي پنهنجو آهي، هتي جو ماحول خوشگوار هئڻ سان گڏو گڏ پُر امن پڻ آهي، هتي جا روڊ رستا، اسپتالون، اسڪول، شاپنگ مال ۽ ٻيون ڪيتريون ئي شيون تعريف جوڳيون آهن، ڏٺو وڃي ت هتي ڪورٽون، ٿاڻا، جيلون ب منفرد آهن. ڳالھ اگر جيل جي ڪئي وڃي ت جيل هڪ جڳھ آهي جتي قيديءَ کي حفاظت سان رکيو وڃي ٿو ۽ قيدي جي تربيت و اصلاح ب ڪئي وڃي ٿي، شهر حيدرآباد ۾ ب جيل آهن.
1: هڪ سينٽرل پريزن جيل (ڊويزنل جيل) جيڪا باب_حيدرآباد يعني سٽي گيٽ وٺ واقعي آهي.
2: ٻي اسپيشل پريزن ۽ ڪريڪشنل فيڪلٽي (ڊسٽرڪٽ جيل) جنهن کي نارا جيل پڻ چيو وڃي ٿو، هيءَ جيل 1942ع ۾ قائم ٿي جنهنجو امجد حُسين غوري صاحب پهريون جيل سپريڊنٽ هُيو، جيڪا سائيٽ ايريا حيدرآباد ۾ واقع آهي.
ناراجيل ايراضيءَ جي حوالي سان 87 ايڪڙ، 4 گهنٽن ۾ پکڙيل آهي، واضع رهي ت ناراجيل جي ڀرسان هڪ جيل پوليس جو ٽرينِنگ سينٽر پڻ موجود آهي جتي سن 2007ع کان جيل پوليس جي آفسر سان گڏ آفس سپريڊنٽ يا ڪلارڪ اسٽاف کي پڻ پروموٽنگ ڪورس ۽ بيسِڪ ڪورس ڪرايا ويندا آهن.
ناراجيل ۾ سپريڊنٽ ب آهي جنهن کي ٻين لفظن جيل جو بادشاھ ب چئي سگهجي ٿو جيڪو جيل اندر مئجسٽريٽ جا اختيار پڻ رکي ٿو.
*قانون ۽ قاعدا:
جيئن ت ناراجيل بنسبت سينٽرل پريزن جيل جي هڪ ننڊو جيل آهي تنهن ڪري هتي ڪچا قيدي رکيا وڃن ٿا، هتي ملاقات جو هڪ ٽائيم مقرر آهي جڏهن ت ٽائيم کان علاوه قيدي سان مُلاقات ن ٿي سگهندي.
جيل جي قانون مطابق ليڊيز پوليس ب مقرر ٿيل آهي جيڪا قيديءَ سان مُلاقات لاءِ ايندڙ گهر وارن کان تلاشي جو ڪم سر انجام ڏيندي آهي.
هتي هيٺيون عملو يعني سپاهي، ڪلارڪ وغيرا جن جي ڊيوٽيءَ جو ٽايئم مقرر ٿيل آهي جن جي ٽايئم سان گڏو گڏ ردوبدل ٿيندي رهي ٿي، پر ڪي پوسٽون اهڙيون ب مقرر ٿيل آهن جن جي ڊيوٽي ٽايئم جي حساب سان 12 کان 14 ڪلاڪن تائين آهي.
ناراجيل ۾ هر روز صبح جو قيدين جي ڳڻپ ٿيندي آهي ۽ شام جو جيل کي نئين قانون

 
تحت اصلاح گهر جو درجو ڏنو ويو آهي.  act:2019
هتي ٻن قسمن جون ڪالونيون آهن، جن ۾ ڪيٽيگري وائز رهائش جو بندوبست ٿيل آهي، جڏهن ت هڪ اُها ڪالوني جنهن ۾ ننڍا ملازم ۽ ٻي جتي جيل جا بااعليٰ آفسير وغيره رهائش پذير  آهن، ناراجيل جو ماحول پر سُڪون ۽ دلچسپ آهي جيل جا نادريان روڊ رستا پڪا ۽ صاف سُٿرا پڻ آهن.
ويجهڙائي ۾ مختلف قسمن جا ٻوٽا رکيا ويا آهن جنهن ۾ ٻيلي کاتي وارن ناراجيل اندر تقريباََ 4000 جي لڳ ڀڳ ٻوٽا رکيا جنهنجو افتاح آءِ جي جيل نصرت حُسين مڱريو صاحب ڪيو، ٻوٽن لاءِ مالهي پڻ مقرر ٿيل آهن، جيڪي وقت مطابق پاڻي، ڀاڻ ۽ ٻيون ضرورتون پوريون ڪري ساوڪ ڪرڻ ۾ مشغول و مصروف آهن.
ناراجيل اندر اسپتال ۽ ڪجن جتي رڌ بچاءُ وغيره ڪئي ويندي آهي، جڏهن ت جيل اندر ڏينهن ڏهاڙا ب بهترين ۽ پُرجوش طريقي سان منايا ويندا آهن، جن ۾
1: ڪشميرين سان يڪجهتي
2: سنڌي ٽوپي ۽ اجرڪ جو ثقافتي ڏهاڙو
3: محرم ۾ اهلِ بيت اطهرات لاءِ ماتم ۽ مرثيا پڻ پڙهيا ويندا آهن
۽ ٻيا کوڙ تهوار ب رسم و رواج سان منايا ويندا آهن.
ناراجيل ۾ ن صرف قيدين کي رهايو وڃي ٿو پر هنن جي بنهترين اصلاح لاءِ ڪمپيوٽر ڪورس، ديني، دنياوي تعليم ڏئي معاشري جو بهترين فرد بڻايو ٿو وڃي، جڏهن ت قيدين کي صاف و شفاف پاڻي، ٽي وي، ڪتاب وغيرا ڏنا ويا آهن، هتي مختلف ڪيسن سان تعلق رکندڙ قيدي جيل اندر ايندا آهن، جن جي جيل جو عملو بهترين طريقي سان حفاظت ڪري ۽ سکيان دوران هنن کي سُٺو انسان بڻائي معاشري ۾ عزت سان رهڻ جا گُڻ پِڻجھ سيکاريا ويندا آهن. ن رڳُو تعليم پر صحت جي لحاظ کان ب بهتر کاڌو ۽ هفتي اندر قيدين جي چڪاس پڻ ڪئي وڃي ٿي.
*جيل جي ماڙي: هتي هڪ جڳھ ب آهي جنهن کي جيل جي ماڙي پڻ چيو وڃي ٿي، جيل جي ماڙي جتان پوري جيل کي نظر ۾ رکي ضابطي اندر آندي ويندو آهي، ۽ هتي هڪ جيلر جنهن کي اسٽنٽ سُپريڊنٽ آف پوليس يعني اي، ايس، پي پڻ چيئو آهي جيڪو جيل جي پوري اسٽاف ۽ قيدين کي پنهنجي ڪنٽرول ۾ رکندو آهي.
*ناراجيل ۽ سينٽرل جيل ۾ فرق: واضع رهي ت ناراجيل سينٽرل جيل کان هر لحاظ ۾ ننڍرو ۽ مختصر پڻ آهي، جڏهن ت ناراجيل ڊسٽرڪٽ جيل ۽ سينٽرل جيل ڊويزنل جيل آهي.
ناراجيل ۾ ننڍا قيدي رکيا ويندا آحن جڏهن ت سينٽرل جيل ۾ سزا يافتا يا وڏا قيدي رکيا ويندا آحن ناراجيل هڪ ئي جيل آهي جڏهن ت سينٽرل جيل ۾ ٻارن جي جيل (بچا جيل) پڻ آهي، هتي هنر جي لحاظ کان پڻ گهڻو ڪم قيدي ڪن ٿا جن ۾ سنڌي ٽوپي ۽ ٻيون پڻ ڪيتريون ئي بهترين شيون قيدي ٺاهن ٿا.
سنيٽرل جيل جي اندر ننڍڙيون ڪورٽون وغيرا ب آهن، ڦاهي کاٽ ب صرف سينٽرل جيل ۾ آهي، سينٽرل جيل هڪ حساس جڳي پڻ آهي، جڏهن ت ناراجيل خطري کان ٻاهر آهي.


Qirat Shakeel Urdu Feature 42 Referred back

بلندی سے کیا مطلب ہے؟ 
منظر کشی نہیں، اس کے  بغیر یہ فیچر نہیں آرٹیکل لگتا ہے۔
سیر کو آنے والے لوگوں کی تعداد کس ذریعے نے بتائی؟
کہیں سے چیک کیا ہے کہ  یہ جھیل وائلڈ لائف سینکچوری کا درجہ رکھتی ہے؟    ماہی گیری کا کام نسل پرستی۔۔ یہ غلط ہے۔
محکمہ ثقافت وسیاحت سندھ کی جانب سے  سیاحوں کے لئے ہٹ بھی ہیں۔ اس کا ذکر کریں 
صفائی کا درست انتظام نہیں۔
آخری پیراگراف میں  نامعلوم ذریعہ دیا گیا ہے۔ یہ نام اور پورے تعارف کے ساتھ ہونا چاہئے۔ 
رپورٹنگ بیسڈ نہیں۔ مشاہد بھی بیان نہیں کیا گیا۔
کینجھر کو انگریزوں نے مزید ڈولپ کیا تھا تاکہ کراچی میں موجود اپنی فوجی چھانونی کو پانی پہنچایا جاسکے۔ 
فوٹوز بھی چاہئیں ہونگے۔
اچھی کوشش ہے لیکن کچھ چیزیں رہ گئی ہیں۔
File name is wrong. it should be: Qirat Feature MMC-42 Urdu
Referred back
Also write ur name, roll no etc in English in text file
فیچر  تحریر  قرأت محمد شکیل 
رول نمبر:2K20/MMC/42(ایم اے پریویس)

کینجھر جھیل

اس دنیا کے مصور نے انسان کو اس دنیا میں بھیجنے سے پہلے اس سانس لینے کے قابل بنانے کے لیے ایک خوبصورت اور ایک پر آسائش گھر بنایا۔اوپر والے نے اس دنیا میں خوبصورت جھیلوں کا بھی نظام بنایا جو انسان اور دوسرے سانس لینے والوں کے لیے قدرت کا انمول تحفہ ہے۔ اسی طرح کینجھر جھیل پاکستان کی خوبصورت جھیل بھی سندھ کے اور دوسرے سیاحوں کے لیے ایک اہم تحفہ ہے۔ 
کینجھر جھیل اولڈ نیشنل ہائی وے پر ضلع ٹھٹھہ میں واقع ہے یہ ایک پرانی اور تاریخی جھیل ہے جو پاکستان میں میٹھے پانی کی دوسری بڑی جھیل ہے۔ یہ جھیل کراچی اور ٹھٹھہ ضلع کے لیے پانی کا ذریعہ بھی ہے۔ کینجھر جھیل ٹھٹھہ سے تقریباً 18کلو میٹر کی دوری پر ہے۔ جو کہ کرلی جھیل کے نام سے بھی جانی جاتی ہے۔ کینجھر جھیل کی بلندی  25کلو میٹر یعنی 49فٹ ہے۔ اس جھیل کی لمبائی 24کلو میٹر اور چوڑائی6کلو میٹر ہے۔ یہ ایک بڑی تازہ پانی کی جھیل ہے اور اسی وجہ سے سیاحوں میں کافی مقبول ہے۔ یہ جھیل سندھ کے مشہور صوفی شاعر شاہ عبداللطیف بھٹائی کے کلام نوری کی وجہ سے بھی بہت سے ممالک میں جانی جاتی ہے۔ 

کینجھر جھیل ایک مشہور سیاحی مقام ہے اس جھیل پر نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر سے بھی لوگ اپنے گھر والوں کے ساتھ چھٹیاں منانے کے لیے جھیل کا رخ کرتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق کینجھر جھیل پر ایک ہفتے میں 17000لوگ سیر کرنے آتے ہیں۔ تیراکی، مچھلی کے شکار اور بوٹنگ سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ کینجھر جھیل میں موٹر پر چلنے والی چھوٹی کشتیاں ہی سیاحوں واحد تفریح ہے۔ لوگ صرف تفریح کرنے کے لیے نہیں بلکہ جھیل کے بیچوں بیچ بنا نوری جام تماچی کے مزار پر حاضری پیش کرتے ہیں اور جھیل پر رات گزارنے کے لیے مختلف رہائش گاہ اور کھانے پینے کے لیے ہوٹل بھی موجود ہیں مگر سیاحت کے لیے وافر سہولیات نظر نہیں آتیں۔
اس کے علاوہ محکمہ جنگلی حیات سندھ کے قوانین کے تحت کینجھر جھیل کو جنگلی حیات کی مکمل پناہ گاہ یعنی وائلڈ لائف سینکچوری کا درجہ بھی حاصل ہے۔ سنکچوری قرار دینے کے بعد کوئی فرد آب گاہ کے گرد رہائش اختیار نہیں کرسکتا جبکہ گھاس پھوس اور پودوں کو نقصان پہنچانا جھیل سے تین میل تک فائر کرنا اور پانی کو گندہ کرنا قانوناً جرم سمجھا جاتا ہے۔ یہاں پر بیشتر پرندے اڑ کر آتے ہیں خاص طور پر وہ پرندے جو ملک میں ٹھنڈ کے باعث زندہ نہیں رہ پاتے۔ خاص طور پر بسرا کے وہ جانور پرندے ہزاروں میل کا سفر کرکے اس جھیل کو اپنا بسیرا بناتے ہیں۔ مگر بد قسمتی سے یہ جھیل اس وقت سخت ماحولیاتی مسائل کا شکار ہے۔ 

جھیل کے قرب و جوار میں رہنے والے ہزاروں مچھیروں کے روزگار کا واحد ذریعہ کینجھر جھیل ہے۔ جو مچھلیاں پکڑ کر روزگار کماتے ہیں۔ اس کے علاوہ جھیل میں اگنے والے سرکنڈوں کو کاٹ کر اس کی چٹائی اور جھونپڑیوں کی چھتیں بنانے والے ہزاروں خاندانوں کی روزی روٹی کا زریعہ بھی کینجھر جھیل ہی ہے۔ مزید اس کے بارے میں جاننے کے لیے وہیں کے رہنے والے ایک مچھیرے سے گفتگو کا سلسلہ جب شروع کیا تو اس کے خیالات کچھ اس طرح کے تھے۔ 

کینجھر جھیل کے ارد گرد کے علاقوں کی تقریباً آبادی ایک لاکھ کے قریب ہے۔ کینجھر جھیل پر ہمارا کام روایتی ماہی گیری برادری ہے ہم یہاں اپنے خاندان کے ساتھ رہتے ہیں۔ ماہی گیری کا کام نسل پرستی سے طویل عرصے سے ہمارا خاندانی کام ہے۔ 

کینجھر جھیل پر مچھلیاں پکڑنے والے سردار کینجھر کے نام سے جانے جاتے ہیں جس کو جام تماچی کو بطور انعام پیش کی تھی اس کے بعد صوفی شاعر کی جگہ بن گئی جس پر شاہ عبداللطیف بھٹائی نے بھی کلام لکھے۔ جام تماچی نے اس جھیل پر ایک بڑی بندرگاہ بنائی تھی جہاں پر وہ آرام کرنے کے ساتھ ساتھ جھیل کا نظارہ بھی کرتا تھا۔ وہاں اپنے آنے جانے والے مسافروں اور ان کی کشتیاں دیکھ کر لطف اندوز ہوتا تھا۔ جھیل کے قریب ایک گھر میں رہنے والی مچھیرے کی بیٹی نوری نے جب اپنا نقاب ہٹایا تو اس کی خوبصورتی کا دیوانہ ہوگیا اور کینجھر کے ذریعے نوری کے گھر رشتے کا پیغام پہنچایا اور نوری سے شادی کرکے اس جھیل کانام کینجھر رکھ دیا۔ جس کے بعد یہ جھیل کینجھر کے نام سے مشہور ہوگئی۔ شاہ عبداللطیف بھٹائی نے بھی اپنی کتاب شاہ جو رسالو میں بھی کینجھر جھیل اور اس داستانِ محبت کا اظہار کیا ہے۔ جھیل کے ساحلی علاقوں میں کوئی بھی ذرائع آمدو رفت کا ذریعہ نہیں۔ جام تماچی کے مزار پر اور دوسرے چھوٹے شہروں تک رسائی صرف کشتیوں کی ذریعے ہی ممکن ہے۔ آٹھ سے دس افراد کے لیے موٹر بوٹ تقریباً 500سے2000روپے کرائے پر دستیاب ہوتی ہے۔ جب کہ رہنے کے لیے محکمہ سیاحت کی جانب سے کینجھر جھیل ریزورٹ بنایا گیا ہے۔ جبکہ پاکستان آرمی کا ڈیزرٹ ریزارٹ ہاک بھی رہائش کے لیے میسر ہے۔ 
اور اب دیکھا جائے تو یہ جھیل حکومت کی عدم توجہ کی وجہ سے لاوارث ہے۔ سیر و تفریح کی غرض سے آنے والے لوگوں سے جب میں نے کینجھر کی سہولیات کے بارے میں پوچھا تو ان کے اظہارِ خیال کچھ یوں تھے۔ "یہاں کوئی سہولت میسر نہیں ہمارے لیے اور نہ ہی ہمیں لائف جیکٹس دی جاری ہیں لوگ ایسے ہی پانی میں جارہے ہیں جو کہ انتہائی خطرناک ہے۔ یہاں ٹورسٹ کے لیے کوئی انتظامات نہیں۔ ابھی حال ہی میں نوری کے مزار پر جاتے ہوئے کینجھر میں ایک خاندان کی دو بہنوں سمیت تین عورتیں ڈوب کر جاں بحق ہوگئیں۔ کینجھر جھیل نیلے صاف میٹھے پانی والی جھیل جو کہ کراچی اور ٹھٹھہ کو میٹھا پانی فراہم کرنے کا ذریعہ ہے جو کہ آہستہ آہستہ منچھر جھیل کی طرح زہریلے پانی کی جھیل کی طرف جاتی نظر آرہی ہے۔ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ فیکٹریوں کا گندہ اور زہریلا پانی کینجھر میں چھوڑ کر زہریلی کی جارہی ہے۔ جس کے خلاف مقامی لوگ اور مچھوارے جن کا گزر جھیل پر ہے وہ سڑکوں پر نکل آئے تھے لیکن حکومت نے کوئی نوٹس نہیں لیا۔ 

Wednesday, March 11, 2020

Rahim Bux Jatoi - Feature - Sindhi MA 46 ,Referred back

Again it is plagiarized 
Not reporting based,
Most of portion is copied 
It is in article style add some stories etc

حيدراباد جي تاريخ ڪلهوڙن جي دور کان اڄ تائين
رحيم بخش جتوئي
2K20/MMC/46

سنڌ جي قديم شھرن مان ھڪ وڏو شھر نيرون ڪوٽ به آھي  جيڪو اڄ جي تاريخ ۾ حيدرآباد سڏيو پيو وڃي  حيدرآباد آبادي جي لحاظ کان سنڌ جو ٻيو نمبر وڏو شھر آهي تاريخ ٻڌائي ٿي ته حيدرآباد سنڌ جي گادي جو هنڌ به رهي جيڪو آهي هي ڪلهوڙن جي دور حڪومت کان سنڌ جي گادي جو هنڌ هو ۽ اها حيثيت اوتائين رهيس جيستائين انگريز سنڌ تي قابض نه ٿيا، جن اچي ڪراچي کي سنڌ جي گادي بڻايو پاڪستان قائم ٿيڻ کان اڳ کي خطي جو پيرس به سڏيو ويندو هيو.
نيرون ڪوٽ جو نالو، ٽن لفظن جو مرڪب آهي
ني، رون، ڪوٽ
ني: سنڌي زبان ۾ ني ان کي چئجي ٿو جو برسات جي  وقت جبلن تي پيل برسات جو پاڻي وهي اٿي هلي ٿو ۽ وهندڙ پاڻي جي صورت رکي ٿو.
رون: جنهن جو اصل سنڌي لفظ “روڻ” آهي، معني ڌارون ڌارون ڪري وهي نڪرڻ
ڪوٽ: لفظ جي معني آهي قلعو،
يعني ني روڻ وارو ڪوٽ يا قلعو، عربن ني روڻ کي نيرون ڪري سڏيو آهي ۽ ان جي ڀرسان ٻڌل قلعي کي نيرون ڪوٽ سڏيو آهي.

1768​ ۾ ڪلهوڙا شهنشاهت جي بادشاھ ميان غلام شاھ ڪلهوڙي کي سنڌو درياء جي ڪپ تي نيرون ڪوٽ جي وسندڙ مهاڻن جي آبادي ايتري ته پسند آئي جو ويجهن ٽن ٽڪرن مان هڪ تي پنهنجو قبضو ڪري قلعو جوائن جو فيصلو ڪيو جيڪو اڄ تائين قائم ۽ دائم آهي تڏهن کان پڪو قلعو سان مقبول عام آهي.
چيو وڃي ٿو ته 1773 ۾ ميرن ڪلهوڙن کان خداباد کسيو ۽ وري ان جي نظر حيدرآباد تي به هئي تاريخ ۾ اهو به آهي
ٽﺎﻟﭙﺮ ﺭﺍﭲ
ڪﻠﻬﻮڙﻥ ﮐﺎﻥ ﭘﻮﺀِ ﺳﻨﮅ ﺗﻲ ﻣﻴﺮ ٽﺎﻟﭙﺮﻥ ﺟﻲ ﺣڪﻤﺮﺍﻧﻲ ﻗﺎﺋﻢ ﭤﻲ . ﻣﻴﺮ ﻓﺘﺢ ﻋﻠﻲ ﺧﺎﻥ ٽﺎﻟﭙﺮ ﺧﺪﺍ ﺁﺑﺎﺩ ﮀڏﻱ ﺣﻴﺪﺭﺁﺑﺎﺩ ﺟﻮ ﭘڪﻮ ﻗﻠﻌﻮ ﺍﭼﻲ ﻭﺳﺎﻳﻮ ۽ 1789 ﻉ ﮐﺎﻥ ﺣﻴﺪﺭﺁﺑﺎﺩ ﺋﻲ ﺳﻨﺪﺱ ﮔﺎﺩﻱﺀَ ﺟﻮ ﻫﻨﮅ ﻫﻮ . ﺳﻨﺪﺱ ﻋﺪﺍﻟﺖ ﺑﻪ ﭘڪﻲ ﻗﻠﻌﻲ ۾ ﺋﻲ ﻫﻠﻨﺪﻱ ﻫﺌﻲ . ﻣﻴﺮ ﻓﺘﺢ ﻋﻠﻲ ﺧﺎﻥ ٽﺎﻟﭙﺮ ۽ ﺳﻨﺪﺱ ٽﻲ ﭜﺎﺋﺮ، ﺍﻟﻤﻌﺮﻭﻑ ﭼﺎﺭ ﻳﺎﺭ، ﺣﻴﺪﺭﺁﺑﺎﺩ ﺟﻲ ﻣﻌﺎﻣﻼﺕ ﮐﻲ ﺳﻨﭝﺎﻟﻴﻨﺪﺍ ﻫﺌﺎ .
ٽالپرن جي دور ۾ سڪيورٽي کي برقرار رکيو ۽ اهو به ذڪر آهي ته ميرن جي دور ۾ حيدرآباد هڪ اهم علائقي مرڪز پڻ رهيو. تاريخ ۾ اهو به ذڪر آهي ميرن هڪ انگريز جنهن جو نالو Henry هو جنهن مان ميرن هڪ معاهدو ڪيو جنهن جي نتيجي ۾ پرئئس انٽيسن قائم ٿيو
 ﺳﻨﺪﻥ ﺩﻭﺭ ﺣڪﻮﻣﺖ ﮔﮭﮣﻮ ڊﮔﮭﻮ ﻧﻪ ﻫﻠﻴﻮ، ۽ ﺟﻠﺪ ﺋﻲ 1843 ﻉ ۾ 24 ﻣﺎﺭﭺ ﺗﻲ ﺑﺮﻃﺎﻧﻮﻱ ﻗﻮﺗﻦ ﮐﺎﻥ ﺟﻨﮓ ﻫﺎﺭﺍﺋﮡ ﺑﻌﺪ ﺣﻴﺪﺭﺁﺑﺎﺩ ﺟﻮ ﺷﻬﺮ ﺍﻧﮕﺮﻳﺰﻥ ﺟﻲ ﻗﺒﻀﻲ ﻫﻴﭟ ﺍﭼﻲ ﻭﻳﻮ ۽ ﻣﻴﺮﻥ ﺟﻲ ﺻﺎﺣﺒﻲ ﺍﺧﺘﺘﺎﻡ ﺗﻲ ﭘﻬﺘﻲ .

ميرن (ٽالپرن ) جو دور
 ميرن ڪلهوڙن جي زوال کان پوءِ 1789 ۾ حيدرآباد آيا هني ۽ عدالت جو به ان قلعي جي اندر ٺاهئين اگر تاريخ کي اجاگر ڪيو وڃي ته
ميرن جي زوال کان پوءِ اگر اسان انهن انگريزن جي ڳالھ ڪيون جيڪي ان وقت آرام آرام سان پوري هند کي پنهنجي قبضي ۾ ڪري رهيا هيا. انهن جو جڏهن رجهان ميرن کان حيدرآباد فتح ڪرڻ کان پوءِ 1851 هنن هڪ جيل قائم ڪئي جيڪا اڄ به سينٽر جيل سان آهي ۽ ميونپلٽي قائم ڪئي جيڪا 1853 ۾ بنياد رکيو اڄوڪي تاريخ ۾ جنهن کي اسان راڻي باغ جي نالي سان سڏيون ٿا هو انگريزن جي وقت 1861 ۾ قائم ڪيو ويو هيو جنهن جو نالو DAS GARDENS هيو. تاريخ اهو به اجاگر ڪري ئي ته بنگالي شاعر پنهنجي ته انڊيا ۾ سڀ کان وڌيڪ فيشن حيدرآباد ۾ ٿين ٿا. اگر ماضي کي ياد ۽ تاريخ کي ڏٺو وڃي ته حيدرآباد جون پڪيون ۽ خوبصورت عمارتون برطانوي دور ۾ جڙيون حيدرآباد جي ويجهو خوبصورت ۽ شاهڪار ڪوٽڙي بيراج پڻ انگريزن جي دور ۾ جڙي ان کان سواءِ حيدرآباد ۾ تعليمي ۽ ثخافتي سرگرمين اڃا وڌيڪ زور ڀريو
ﺍﭲ ﺑﺪﻗﺴﻤﺘﻲﺀَ ﺳﺎﻥ ﺳﻨﮅ ﺟﻲ ﻫﻦ ﺗﺎﺭﻳﺨﻲ ﺷﻬﺮ ۽ ﺍﺩﺑﻲ ﺛﻘﺎﻓﺘﻲ ﻣﺮڪﺰ ﺗﻲ ﺍﺭﺩﻭ ﮘﺎﻟﻬﺎﺋﻴﻨﺪڙ ﻗﻮﻡ ﺟﻮ ﻗﺒﻀﻮ ﺁﻫﻲ ۽ ﭘڪﻲ ﻗﻠﻌﻲ ۾ ﻣﻬﺎﺟﺮﻥ ﺟﺎ ﻫﺰﺍﺭﻳﻦ ﮔﮭﺮ ﺁﺑﺎﺩ ﺁﻫﻦ . ﺷﻬﺮ ﺟﻲ ﺍڪﺜﺮﻳﺖ ﺍﺭﺩﻭ ﮘﺎﻟﻬﺎﺋﻴﻨﺪڙ ﺁﻫﻲ . ﭘﺎڪﺴﺘﺎﻧﻲ ﺑﻴﭡڪ ﻗﺎﺋﻢ ﭤﻴﮡ ﺷﺮﻁ ڪﺮﺍﭼﻲﺀَ ﮐﻲ ﻭﻓﺎﻗﻲ ﮔﺎﺩﻱﺀَ ﺟﻮ ﻫﻨﮅ ﺑﮣﺎﺋﻲ ﺳﻨﮅ ﮐﺎﻥ ﮄﺍﺭ ڪﻴﻮ ﻭﻳﻮ ۽ ﺳﻨﮅ ﺟﻲ ﮔﺎﺩﻱﺀَ ﮐﻲ ﺣﻴﺪﺭﺁﺑﺎﺩ ﻣﻨﺘﻘﻞ ڪﻴﻮ ﻭﻳﻮ . ﺍﻫڙﻱﺀَ ﺭﻳﺖ ڪﺠﮭﻪ ﺳﺎﻟَﻦ ﻻﺀِ ﺣﻴﺪﺭﺁﺑﺎﺩ ﻫڪ ﭜﻴﺮﻭ ﻭﺭﻱ ﺳﻨﮅ ﺟﻲ ﮔﺎﺩﻱﺀَ ﺟﻮ ﮬﻨﮅ ﺑﮣﻴﻮ ﻫﻮ . ﻣﮕﺮ ﭘﺎڪﺴﺘﺎﻥ ﺟﻲ ﻗﻴﺎﻡ ﮐﺎﻥ ﭘﻮﺀِ ﻟڏﻱ ﻭﻳﻨﺪڙ ﻫﻨﺪﻥ ﺟﻮﻥ ﺳﻤﻮﺭﻳﻮﻥ ﻣﻠڪﻴﺘﻮﻥ ﻫﻨﺪﺳﺘﺎﻧﻲ ﻣﻬﺎﺟﺮﻥ ۾ ﻭﺭﻫﺎﻳﻮﻥ ﻭﻳﻮﻥ .
ﭜُﻮﻥ ﻧﮕﺎﺭﻱ :
ﺣﻴﺪﺭﺁﺑﺎﺩ ﮔﻨﺠﻲ ٽڪﺮ ﺟﻲ ﺍُﺗﺮﻳﻦ ٽڪﺮﻱﺀَ ﺗﻲ ﻭﺍﻗﻊ ﺁﻫﻲ، ﺟﻴڪﺎ ﻭﻳڪﺮﺍﺋﻲ ﭰﺎڪَ 25.367 ‏( ﺍُﺗﺮ ‏) ﺩﺭﺟﺎ ۽ ڊﮔﮭﺎﺋﻲ ﭰﺎڪَ 68.367 ﺩﺭﺟﺎ ‏( ﺍﻭﭜﺮ ‏) ﺗﻲ، ﺳﻨﮅﻭ ﺩﺭﻳﺎﺀَ ﺟﻲ ﺍﭜﺮﻧﺪﻱ ڪﭗَ ﺗﻲ ﻭﺍﻗﻊ ﺁﻫﻲ . ﺣﻴﺪﺭﺁﺑﺎﺩ ﺟﻲ ﭘﺴﮕﺮﺩﺍﺋﻲﺀَ ۾ ڪﻴﺘﺮﺍ ﺋﻲ ﻧﻨﮃﺍ ﺷﻬﺮ ﺁﻫﻦ، ﺟﻬڙﻭڪ 6.7 ڪﻠﻮﻣﻴٽﺮ ﺟﻲ ﻓﺎﺻﻠﻲ ﺗﻲ ڪﻮٽڙﻱ، 8.1 ڪﻠﻤﻮﻣﻴٽﺮ ﺟﻲ ﻓﺎﺻﻠﻲ ﺗﻲ ﭴﺎﻣﺸﻮﺭﻭ، 5 ڪﻠﻮﻣﻴٽﺮ ﺟﻲ ﻓﺎﺻﻠﻲ ﺗﻲ ﻫٽڙﻱ، ۽ 7.5 ڪﻠﻮﻣﻴٽﺮ ﺟﻲ ﻓﺎﺻﻠﻲ ﺗﻲ ﻫُﺴڙﻱ . ﺣﻴﺪﺭﺁﺑﺎﺩ ﺳﻨﮅ ﺟﻲ ﻭڏﻱ ۾ ﻭڏﻱ ﺷﻬﺮ ڪﺮﺍﭼﻲﺀَ ﮐﺎﻥ ﺗﻘﺮﻳﺒﺎً 160 ڪﻠﻮﻣﻴٽﺮﻥ ﺟﻲ ﻓﺎﺻﻠﻲ ﺗﻲ ﺍﺗﺮ ﺍﻭﭜﺮ ۾ ﺳﺎﻣﻮﻧڊﻱ ﺳﻄﺢ ﮐﺎﻥ 13 ﻣﻴٽﺮ ﺍﻭﭼﺎﺋﻲﺀَ ﺗﻲ ﻭﺍﻗﻊ ﺁﻫﻲ .
ﺗﻌﻠﻴﻢ :
ﺣﻴﺪﺭﺁﺑﺎﺩ ۽ ﺍﻥ ﺟﻲ ﭘﺴﮕﺮﺩﺍﺋﻲﺀَ ۾ ڪﻴﺘﺮﺍ ﺋﻲ ﺍﻋﻠﻲٰ ﺗﻌﻠﻴﻤﻲ ﺍﺩﺍﺭﺍ ﺁﻫﻦ ﺟﻦ ۾ .
ﺳﻨﮅ ﻳﻮﻧﻴﻮﺭﺳٽﻲ ﭴﺎﻣﺸﻮﺭﻭ
( http://www.usindh.edu.pk /
ﺻﺤﺖ ۽ ﻃﺒﻲ ﺳﺎﺋﻨﺲ ﺟﻲ ﻟﻴﺎﻗﺖ ﻳﻮﻧﻴﻮﺭﺳٽﻲ ﭴﺎﻣﺸﻮﺭﻭ
( http://www.lumhs.edu.pk /
ﺁﺑﻬﻮﺍ :
ﺣﻴﺪﺭﺁﺑﺎﺩ ﻣﻨﺠﮭﻨﺪ ﺟﻮ ﺗﻤﺎﻡ ﮔﺮﻡ ﭤﻴﻨﺪﻭ ﺁﻫﻲ . ﺳﻴﺎﺭﻭ ﺍڪﺜﺮ ﺗﻤﺎﻡ ﮔﮭٽ ﭤﮅﻭ ﭤﻴﻨﺪﻭ ﺁﻫﻲ . ﺟڏﻫﻦ ﺗﻪ ﺍﻭﻧﻬﺎﺭﻱ ۾ ﻣﻨﺠﮭﻨﺪ ﺟﻮ ﮔﺮﻣﻲ ﭘﺪ 48 ﺩﺭﺟﺎ ﺳﻴﻨٽﻴﺪﺭﻳڊ ﺑﻪ ﭤﻲ ﻭﻳﻨﺪﻭ ﺁﻫﻲ . ﺍﻭﻧﻬﺎﺭﻱ ۾ ﺭﺍﺕ ﺟﻮ ﺗﻤﺎﻡ ﺳﭡﻮ ﭠﺎﺭ ﭤﻴﻨﺪﻭ ﺁﻫﻲ ﺟڏﻫﻦ ﺗﻪ ﺳﻴﺎﺭﻱ ﺟﻮﻥ ﺭﺍﺗﻴﻮﻥ ﺗﻤﺎﻡ ﭤﮅﻳﻮﻥ ﭤﻲ ﻭﻳﻨﺪﻳﻮﻥ ﺁﻫﻦ ، ﮀﺎڪﺎﮠ ﺗﻪ ﺣﻴﺪﺭﺁﺑﺎﺩ ۾ ﺍڪﺜﺮ ﺗﻴﺰ ﻫﻮﺍﺋﻮﻥ ﻟﮙﻨﺪﻳﻮﻥ ﺁﻫﻦ . ﺗﻨﻬﻨڪﺮﻱ ﺳﻴﺎﺭﻱ ﺟﻮﻥ ﺭﺍﺗﻴﻦ ۾ ﻫﻮﺍﺋﻮﻥ ﺗﻤﺎﻡ ﮔﮣﻴﻮﻥ ﭤﮅﻳﻮﻥ ﭤﻴﻨﺪﻳﻮﻥ ﺁﻫﻦ ﺗﻪ ﺍﻭﻧﻬﺎﺭﻱ ۾ ﻣﻨﺠﮭﻨﺪ ﺟﻮ ﻟُڪَ ﻟﮙﻨﺪﻱ ﺁﻫﻲ . ﺗﻨﻬﻨڪﺮﻱ ﺣﻴﺪﺭﺁﺑﺎﺩ ﺟﺎ ﻣﺎﮢﻬﻮ ﺍﻭﻧﻬﺎﺭﻱ ۾ ﻣﻨﺠﮭﻨﺪ ﺟﻮ ﭔﺎﻫﺮ ﻧڪﺮﮠ ﮐﺎﻥ ﭘﺎﺳﻮ ڪﻨﺪﺍ ﺁﻫﻦ .
ﻣﻌﺎﺷﻴﺎﺕ :
ﺁﺑﺎﺩﻱﺀَ ﺟﻲ ﺍڪﺜﺮﻳﺖ ﺟﻴﺌﺎﻥ، ﺣﻴﺪﺭﺁﺑﺎﺩ ﺟﻲ ڪﺎﺭﻭﺑﺎﺭ ڪﺎﭠﻴﺎﻭﺍڙﻱ ﻣﻴﻤﮡ ۽ ﮔﺠﺮﺍﺗﻲ . ﻫﺎﮢﻲ ﺗﻪ ﺣﻴﺪﺭﺁﺑﺎﺩ ﺟﻲ ﺷﻬﺮ ۾ ﺍﻓﻐﺎﻧﻲ ﭘﻨﺎﻫﮕﻴﺮ ﺑﻪ ڪﺎﺭﻭﺑﺎﺭ ڪﺮﻱ ﺭﻫﻴﺎ ﺁﻫﻦ . ﭘﺎڪﺴﺘﺎﻥ ﺟﻲ ﺑﻴﭡڪ ﻗﺎﺋﻢ ﭤﻴﮡ ﮐﺎﻥ ﭘﻮﺀِ ﻣﺤﺎﺟﺮ ﻗﻮﻡ ﺟﻲ ڪﻦ ﻓﺮﺩﻥ ﺣﻴﺪﺭﺁﺑﺎﺩ ۾ ﭼﻮڙﻳﻦ ﺟﺎ ڪﺎﺭﺧﺎﻧﺎ ﻟﮙﺎﻳﺎ، ﺟﻨﻬﻦ ﮐﺎﻥ ﭘﻮﺀِ ﺩﻧﻴﺎ ﺟﻮ ﻭڏﻱ ۾ ﻭڏﻱ ﭼﻮڙﻳﻦ ﺟﻮ ﺻﻨﻌﺘﻲ ﻣﺮڪﺰ ﺣﻴﺪﺭﺁﺑﺎﺩ ﺑﮣﺠﻲ ﻭﻳﻮ . ﺍﻥ ﮐﺎﻥ ﺳﻮﺍﺀِ ﻫﻦ ﻭﻗﺖ ﺣﻴﺪﺭﺁﺑﺎﺩ ۾ ﺳﻤﻴﻨٽ، ﺻﺎﺑﮡ، ﺷﻴﺸﻲ ﺟﺎ ڪﺎﺭﺧﺎﻧﺎ ﭘﮡ ﺁﻫﻦ . ﺗﻨﻬﻦ ﮐﺎﻥ ﺳﻮﺍﺀِ ﺳﻮﻥ ۽ ﺩﺳﺘڪﺎﺭﻱﺀَ ﺟﺎ ﻫﻨﺮﻣﻨﺪ ﭘﮡ ﻧﻤﺎﻳﺎﻥ ﺁﻫﻦ . ﭜﺮﭘﺎﺳﻲ ﺟﻲ ﭔﻬﺮﺍڙﻱﺀَ ۾ ﺍﭘﺎﻳﻞ ﻣﻴﻮﻱ، ڪﮣڪ، ﭼﺎﻧﻮﺭ، ۽ ڪﭙﺎﻫﻪ ﺟﻲ ﻭڪﺮﻱ ﺟﻮ ﻣﺮڪﺰ ﭘﮡ ﺣﻴﺪﺭﺁﺑﺎﺩ ﺁﻫﻲ .
ﻫﻮﺍﺋﻲ ﺍڏﻭ :
ﺍﮘﻲ ﺍﻫﻮ ﭼﮝﻮ ﺧﺎﺻﻮ ﻫﻮﺍﺋﻲ ﺍڏﻭ ﻫﻮ، ﭘﺮ ﻫﻦ ﻭﻗﺖ ﺗﻘﺮﻳﺒﺎً ﺑﻨﺪ ﭘﻴﻮ ﺁﻫﻲ . ﭘﻲ ﺁﺋِﻲ ﺍﻱ ﺍﺗﺎﻥ ﻫﺮ ﻫﻔﺘﻲ ٽﻲ ﺍڏﺍﻣﻮﻥ ﭜﺮﻳﻨﺪﻱ ﻫﺌﻲ . ﺍﭸﺎ ﺑﻪ ڪڏﻫﻦ ﻏﻴﺮ ﭼﺎﺭٽﺮڊ ﺍڏﺍﻡ ﺍﺗﻲ ﻟﻬﻲ ﺳﮕﮭﻲ ﭤﻲ ..
ﻣﺎﮢﻬﻨﮕﺎﺭﻱ :

ﻣﺎﮢﻬﺴﻴﻪ Population ﺟﻲ ﻟﺤﺎﻅ ﮐﺎﻥ ﺣﻴﺪﺭﺁﺑﺎﺩ ﺳﻨﮅ ﺟﻮ ﭔﻴﻮﻥ، ﺍﭴﻮڪﻲ ﭘﺎڪﺴﺘﺎﻧﻲ ﺑﻴﭡڪ ۾ ﺍﭠﻮﻥ ۽ ﺩﻧﻴﺎ ۾ ﭔﻪ ﺳَﻮ ﻧﺎﺋﻮﻥ ‏( 209 ‏) ﻭڏﻱ ۾ ﻭڏﻭ ﺷﻬﺮ ﺁﻫﻲ . ﻫﻦ ﻭﻗﺖ ﺍﻥ ﺟﻲ ﻣﺎﮢﻬﺴﻴﻪ ﻟﮗ ﭜﮗ 1,386,840 ﺁﻫﻲ . ﺣﻴﺪﺭﺁﺑﺎﺩ ﺟﻲ ﺁﺑﺎﺩﻱﺀَ ﺟﻲ ﺍڪﺜﺮﻳﺖ ﻣﻬﺎﺟﺮﻥ ﺗﻲ ﻣﺸﺘﻤﻞ ﺁﻫﻲ . ﺍﻧﺘﻈﺎﻣﻲ ﺍﻋﺘﺒﺎﺭ ﺳﺎﻥ ﺍﭴﻮڪﻮ ﺣﻴﺪﺭﺁﺑﺎﺩ ﺷﻬﺮ ۽ ﺿﻠﻌﻮ ﭼﺌﻦ ﺗﻌﻠﻘﻦ، ﺣﻴﺪﺭﺁﺑﺎﺩ ﺷﻬﺮ، ﻗﺎﺳﻢ ﺁﺑﺎﺩ، ﻟﻄﻴﻒ ﺁﺑﺎﺩ ۽ ﺣﻴﺪﺭﺁﺑﺎﺩ ﭔﻬﺮﺍڙﻱ ۾ ﻭﺭﻫﺎﻳﻞ ﺁﻫﻲ . ﺍﻧﻬﻦ ﻣﺎﻥ ﭔﻦ ﺗﻌﻠﻘﻦ، ﻳﻌﻨﻲ ﭔﻬﺮﺍڙﻱ ۽ ﻗﺎﺳﻢ ﺁﺑﺎﺩ ۾ ﺍڪﺜﺮﻳﺖ ﺳﻨﮅﻱ ﺁﺑﺎﺩﻱﺀَ ﺟﻲ ﺁﻫﻲ ﺗﻪ ﺑﺎﻗﻲ ﭔﻦ ﻭڏﻥ ﺗﻌﻠﻘﻦ ۾ ﺍڪﺜﺮﻳﺖ ﻣﻬﺎﺟﺮﻥ ﺟﻲ ﺁﻫﻲ

plagiarized 
Not reporting based,
Most of portion is copied 
It is in article style add some stories etc

File again till March 13
,Referred back

حيدراباد جي تاريخ ڪلهوڙن جي دور کان اڄ تائين

رحيم بخش جتوئي
2K20/MMC/46

سنڌ جي قديم شهرن مان هڪ شهر نيرون ڪوٽ آهي جيڪو اڄ جي تاريخ ۾ حيدرآباد سڏيو پيو وڃي تاريخ ٻڌائي ٿي ته حيدرآباد سنڌ جي گادي جو هنڌ به رهي جيڪو آهي هي ڪلهوڙن جي دور حڪومت کان سنڌ جي گادي جو هنڌ هو ۽ اها حيثيت اوتائين رهيس جيستائين انگريز سنڌ تي قابض نه ٿيا، جن اچي ڪراچي کي سنڌ جي گادي بڻايو پاڪستان قائم ٿيڻ کان اڳ کي خطي جو پيرس به سڏيو ويندو هيو.
نيرون ڪوٽ جو نالو، ٽن لفظن جو مرڪب آهي
ني، رون، ڪوٽ
ني: سنڌي زبان ۾ ني ان کي چئجي ٿو جو برسات جي  وقت جنلن تي پيل برسان جو پاڻي وهي اٿي هلي ٿو ۽ وهندڙ پاڻي جي صورت رکي ٿو.
رون: جنهن جو اصل سنڌي لفظ “روڻ” آهي، معني ڌارون ڌارون ڪري وهي نڪرڻ
ڪوٽ: لفظ جي معني آهي قلعو،
يعني ني روڻ وارو ڪوٽ يا قلعو، عربن ني روڻ کي نيرون ڪري سڏيو آهي ۽ ان جي ڀرسان ٻڌل قلعي کي نيرون ڪوٽ سڏيو آهي.

1768 ۾ ڪلهوڙا شهنشاهت جي بادشاھ ميان غلام شاھ ڪلهوڙي کي سنڌو درياء جي ڪپ تي نيرون ڪوٽ جي وسندڙ مهاڻن جي آبادي ايتري ته پسند آئي جو ويجهن ٽن ٽڪرن مان هڪ تي پنهنجو قبضو ڪري قلعو جوائن جو فيصلو ڪيو جيڪو اڄ تائين قائم ۽ دائم آهي تڏهن کان پڪو قلعو سان مقبول عام آهي.
چيو وڃي ٿو ته 1773 ۾ ميرن ڪلهوڙن کان خداباد کسيو ۽ وري ان جي نظر حيدرآباد تي به هئي تاريخ ۾ اهو به آهي ته ميرن ڪلهوڙن جي زوال کان پوءِ 1789 ۾ حيدرآباد آيا هني ۽ عدالت جو به ان قلعي جي اندر ٺاهئين اگر تاريخ کي اجاگر ڪيو وڃي ته ٽالپرن جي دور ۾ سڪيورٽي کي برقرار رکيو ۽ اهو به ذڪر آهي ته ميرن جي دور ۾ حيدرآباد هڪ اهم علائقي مرڪز پڻ رهيو. تاريخ ۾ اهو به ذڪر آهي ميرن هڪ انگريز جنهن جو نالو Henry هو جنهن مان ميرن هڪ معاهدو ڪيو جنهن جي نتيجي ۾ پرئئس انٽيسن قائم ٿيو ميرن جون گلستون ميرن کي ان دفت نه خبر پئي پر اڳيان انهن کي احساس ٿيو ته جڏهن حيدرآباد ۾ 1843 March 24 جي جنگ ۾ ٽالپرن حڪمرانن کي شڪست ڏني صوبائي گادي تي انگريزن جو راڄ ٿيو.
ميرن جي زوال کان پوءِ اگر اسان انهن انگريزن جي ڳالھ ڪيون جيڪي ان وقت آرام آرام سان پوري هند کي پنهنجي قبضي ۾ ڪري رهيا هيا. انهن جو جڏهن رجهان ميرن کان حيدرآباد فتح ڪرڻ کان پوءِ 1851 هنن هڪ جيل قائم ڪئي جيڪا اڄ به سينٽر جيل سان آهي ۽ ميونپلٽي قائم ڪئي جيڪا 1853 ۾ بنياد رکيو اڄوڪي تاريخ ۾ جنهن کي اسان راڻي باغ جي نالي سان سڏيون ٿا هو انگريزن جي وقت 1861 ۾ قائم ڪيو ويو هيو جنهن جو نالو DAS GARDENS هيو. تاريخ اهو به اجاگر ڪري ئي ته بنگالي شاعر پنهنجي ته انڊيا ۾ سڀ کان وڌيڪ فيشن حيدرآباد ۾ ٿين ٿا. اگر ماضي کي ياد ۽ تاريخ کي ڏٺو وڃي ته حيدرآباد جون پڪيون ۽ خوبصورت عمارتون برطانوي دور ۾ جڙيون حيدرآباد جي ويجهو خوبصورت ۽ شاهڪار ڪوٽڙي بيراج پڻ انگريزن جي دور ۾ جڙي ان کان سواءِ حيدرآباد ۾ تعليمي ۽ ثخافتي سرگرمين اڃا وڌيڪ زور ڀريو
ﺍﭲ ﺑﺪﻗﺴﻤﺘﻲﺀَ ﺳﺎﻥ ﺳﻨﮅ ﺟﻲ ﻫﻦ ﺗﺎﺭﻳﺨﻲ ﺷﻬﺮ ۽ ﺍﺩﺑﻲ ﺛﻘﺎﻓﺘﻲ ﻣﺮڪﺰ ﺗﻲ ﺍﺭﺩﻭ ﮘﺎﻟﻬﺎﺋﻴﻨﺪڙ ﻗﻮﻡ ﺟﻮ ﻗﺒﻀﻮ ﺁﻫﻲ ۽ ﭘڪﻲ ﻗﻠﻌﻲ ۾ ﻣﻬﺎﺟﺮﻥ ﺟﺎ ﻫﺰﺍﺭﻳﻦ ﮔﮭﺮ ﺁﺑﺎﺩ ﺁﻫﻦ . ﺷﻬﺮ ﺟﻲ ﺍڪﺜﺮﻳﺖ ﺍﺭﺩﻭ ﮘﺎﻟﻬﺎﺋﻴﻨﺪڙ ﺁﻫﻲ . ﭘﺎڪﺴﺘﺎﻧﻲ ﺑﻴﭡڪ ﻗﺎﺋﻢ ﭤﻴﮡ ﺷﺮﻁ ڪﺮﺍﭼﻲﺀَ ﮐﻲ ﻭﻓﺎﻗﻲ ﮔﺎﺩﻱﺀَ ﺟﻮ ﻫﻨﮅ ﺑﮣﺎﺋﻲ ﺳﻨﮅ ﮐﺎﻥ ﮄﺍﺭ ڪﻴﻮ ﻭﻳﻮ ۽ ﺳﻨﮅ ﺟﻲ ﮔﺎﺩﻱﺀَ ﮐﻲ ﺣﻴﺪﺭﺁﺑﺎﺩ ﻣﻨﺘﻘﻞ ڪﻴﻮ ﻭﻳﻮ . ﺍﻫڙﻱﺀَ ﺭﻳﺖ ڪﺠﮭﻪ ﺳﺎﻟَﻦ ﻻﺀِ ﺣﻴﺪﺭﺁﺑﺎﺩ ﻫڪ ﭜﻴﺮﻭ ﻭﺭﻱ ﺳﻨﮅ ﺟﻲ ﮔﺎﺩﻱﺀَ ﺟﻮ ﮬﻨﮅ ﺑﮣﻴﻮ ﻫﻮ . ﻣﮕﺮ ﭘﺎڪﺴﺘﺎﻥ ﺟﻲ ﻗﻴﺎﻡ ﮐﺎﻥ ﭘﻮﺀِ ﻟڏﻱ ﻭﻳﻨﺪڙ ﻫﻨﺪﻥ ﺟﻮﻥ ﺳﻤﻮﺭﻳﻮﻥ ﻣﻠڪﻴﺘﻮﻥ ﻫﻨﺪﺳﺘﺎﻧﻲ ﻣﻬﺎﺟﺮﻥ ۾ ﻭﺭﻫﺎﻳﻮﻥ ﻭﻳﻮﻥ .
ﭜُﻮﻥ ﻧﮕﺎﺭﻱ :
ﺣﻴﺪﺭﺁﺑﺎﺩ ﮔﻨﺠﻲ ٽڪﺮ ﺟﻲ ﺍُﺗﺮﻳﻦ ٽڪﺮﻱﺀَ ﺗﻲ ﻭﺍﻗﻊ ﺁﻫﻲ، ﺟﻴڪﺎ ﻭﻳڪﺮﺍﺋﻲ ﭰﺎڪَ 25.367 ‏( ﺍُﺗﺮ ‏) ﺩﺭﺟﺎ ۽ ڊﮔﮭﺎﺋﻲ ﭰﺎڪَ 68.367 ﺩﺭﺟﺎ ‏( ﺍﻭﭜﺮ ‏) ﺗﻲ، ﺳﻨﮅﻭ ﺩﺭﻳﺎﺀَ ﺟﻲ ﺍﭜﺮﻧﺪﻱ ڪﭗَ ﺗﻲ ﻭﺍﻗﻊ ﺁﻫﻲ . ﺣﻴﺪﺭﺁﺑﺎﺩ ﺟﻲ ﭘﺴﮕﺮﺩﺍﺋﻲﺀَ ۾ ڪﻴﺘﺮﺍ ﺋﻲ ﻧﻨﮃﺍ ﺷﻬﺮ ﺁﻫﻦ، ﺟﻬڙﻭڪ 6.7 ڪﻠﻮﻣﻴٽﺮ ﺟﻲ ﻓﺎﺻﻠﻲ ﺗﻲ ڪﻮٽڙﻱ، 8.1 ڪﻠﻤﻮﻣﻴٽﺮ ﺟﻲ ﻓﺎﺻﻠﻲ ﺗﻲ ﭴﺎﻣﺸﻮﺭﻭ، 5 ڪﻠﻮﻣﻴٽﺮ ﺟﻲ ﻓﺎﺻﻠﻲ ﺗﻲ ﻫٽڙﻱ، ۽ 7.5 ڪﻠﻮﻣﻴٽﺮ ﺟﻲ ﻓﺎﺻﻠﻲ ﺗﻲ ﻫُﺴڙﻱ . ﺣﻴﺪﺭﺁﺑﺎﺩ ﺳﻨﮅ ﺟﻲ ﻭڏﻱ ۾ ﻭڏﻱ ﺷﻬﺮ ڪﺮﺍﭼﻲﺀَ ﮐﺎﻥ ﺗﻘﺮﻳﺒﺎً 160 ڪﻠﻮﻣﻴٽﺮﻥ ﺟﻲ ﻓﺎﺻﻠﻲ ﺗﻲ ﺍﺗﺮ ﺍﻭﭜﺮ ۾ ﺳﺎﻣﻮﻧڊﻱ ﺳﻄﺢ ﮐﺎﻥ 13 ﻣﻴٽﺮ ﺍﻭﭼﺎﺋﻲﺀَ ﺗﻲ ﻭﺍﻗﻊ ﺁﻫﻲ .
ﺗﻌﻠﻴﻢ :
ﺣﻴﺪﺭﺁﺑﺎﺩ ۽ ﺍﻥ ﺟﻲ ﭘﺴﮕﺮﺩﺍﺋﻲﺀَ ۾ ڪﻴﺘﺮﺍ ﺋﻲ ﺍﻋﻠﻲٰ ﺗﻌﻠﻴﻤﻲ ﺍﺩﺍﺭﺍ ﺁﻫﻦ ﺟﻦ ۾ .
ﺳﻨﮅ ﻳﻮﻧﻴﻮﺭﺳٽﻲ ﭴﺎﻣﺸﻮﺭﻭ
( http://www.usindh.edu.pk /
ﺻﺤﺖ ۽ ﻃﺒﻲ ﺳﺎﺋﻨﺲ ﺟﻲ ﻟﻴﺎﻗﺖ ﻳﻮﻧﻴﻮﺭﺳٽﻲ ﭴﺎﻣﺸﻮﺭﻭ
( http://www.lumhs.edu.pk /
ﺁﺑﻬﻮﺍ :
ﺣﻴﺪﺭﺁﺑﺎﺩ ﻣﻨﺠﮭﻨﺪ ﺟﻮ ﺗﻤﺎﻡ ﮔﺮﻡ ﭤﻴﻨﺪﻭ ﺁﻫﻲ . ﺳﻴﺎﺭﻭ ﺍڪﺜﺮ ﺗﻤﺎﻡ ﮔﮭٽ ﭤﮅﻭ ﭤﻴﻨﺪﻭ ﺁﻫﻲ . ﺟڏﻫﻦ ﺗﻪ ﺍﻭﻧﻬﺎﺭﻱ ۾ ﻣﻨﺠﮭﻨﺪ ﺟﻮ ﮔﺮﻣﻲ ﭘﺪ 48 ﺩﺭﺟﺎ ﺳﻴﻨٽﻴﺪﺭﻳڊ ﺑﻪ ﭤﻲ ﻭﻳﻨﺪﻭ ﺁﻫﻲ . ﺍﻭﻧﻬﺎﺭﻱ ۾ ﺭﺍﺕ ﺟﻮ ﺗﻤﺎﻡ ﺳﭡﻮ ﭠﺎﺭ ﭤﻴﻨﺪﻭ ﺁﻫﻲ ﺟڏﻫﻦ ﺗﻪ ﺳﻴﺎﺭﻱ ﺟﻮﻥ ﺭﺍﺗﻴﻮﻥ ﺗﻤﺎﻡ ﭤﮅﻳﻮﻥ ﭤﻲ ﻭﻳﻨﺪﻳﻮﻥ ﺁﻫﻦ ، ﮀﺎڪﺎﮠ ﺗﻪ ﺣﻴﺪﺭﺁﺑﺎﺩ ۾ ﺍڪﺜﺮ ﺗﻴﺰ ﻫﻮﺍﺋﻮﻥ ﻟﮙﻨﺪﻳﻮﻥ ﺁﻫﻦ . ﺗﻨﻬﻨڪﺮﻱ ﺳﻴﺎﺭﻱ ﺟﻮﻥ ﺭﺍﺗﻴﻦ ۾ ﻫﻮﺍﺋﻮﻥ ﺗﻤﺎﻡ ﮔﮣﻴﻮﻥ ﭤﮅﻳﻮﻥ ﭤﻴﻨﺪﻳﻮﻥ ﺁﻫﻦ ﺗﻪ ﺍﻭﻧﻬﺎﺭﻱ ۾ ﻣﻨﺠﮭﻨﺪ ﺟﻮ ﻟُڪَ ﻟﮙﻨﺪﻱ ﺁﻫﻲ . ﺗﻨﻬﻨڪﺮﻱ ﺣﻴﺪﺭﺁﺑﺎﺩ ﺟﺎ ﻣﺎﮢﻬﻮ ﺍﻭﻧﻬﺎﺭﻱ ۾ ﻣﻨﺠﮭﻨﺪ ﺟﻮ ﭔﺎﻫﺮ ﻧڪﺮﮠ ﮐﺎﻥ ﭘﺎﺳﻮ ڪﻨﺪﺍ ﺁﻫﻦ .
ﻣﻌﺎﺷﻴﺎﺕ :
ﺁﺑﺎﺩﻱﺀَ ﺟﻲ ﺍڪﺜﺮﻳﺖ ﺟﻴﺌﺎﻥ، ﺣﻴﺪﺭﺁﺑﺎﺩ ﺟﻲ ڪﺎﺭﻭﺑﺎﺭ ڪﺎﭠﻴﺎﻭﺍڙﻱ ﻣﻴﻤﮡ ۽ ﮔﺠﺮﺍﺗﻲ . ﻫﺎﮢﻲ ﺗﻪ ﺣﻴﺪﺭﺁﺑﺎﺩ ﺟﻲ ﺷﻬﺮ ۾ ﺍﻓﻐﺎﻧﻲ ﭘﻨﺎﻫﮕﻴﺮ ﺑﻪ ڪﺎﺭﻭﺑﺎﺭ ڪﺮﻱ ﺭﻫﻴﺎ ﺁﻫﻦ . ﭘﺎڪﺴﺘﺎﻥ ﺟﻲ ﺑﻴﭡڪ ﻗﺎﺋﻢ ﭤﻴﮡ ﮐﺎﻥ ﭘﻮﺀِ ﻣﺤﺎﺟﺮ ﻗﻮﻡ ﺟﻲ ڪﻦ ﻓﺮﺩﻥ ﺣﻴﺪﺭﺁﺑﺎﺩ ۾ ﭼﻮڙﻳﻦ ﺟﺎ ڪﺎﺭﺧﺎﻧﺎ ﻟﮙﺎﻳﺎ، ﺟﻨﻬﻦ ﮐﺎﻥ ﭘﻮﺀِ ﺩﻧﻴﺎ ﺟﻮ ﻭڏﻱ ۾ ﻭڏﻱ ﭼﻮڙﻳﻦ ﺟﻮ ﺻﻨﻌﺘﻲ ﻣﺮڪﺰ ﺣﻴﺪﺭﺁﺑﺎﺩ ﺑﮣﺠﻲ ﻭﻳﻮ . ﺍﻥ ﮐﺎﻥ ﺳﻮﺍﺀِ ﻫﻦ ﻭﻗﺖ ﺣﻴﺪﺭﺁﺑﺎﺩ ۾ ﺳﻤﻴﻨٽ، ﺻﺎﺑﮡ، ﺷﻴﺸﻲ ﺟﺎ ڪﺎﺭﺧﺎﻧﺎ ﭘﮡ ﺁﻫﻦ . ﺗﻨﻬﻦ ﮐﺎﻥ ﺳﻮﺍﺀِ ﺳﻮﻥ ۽ ﺩﺳﺘڪﺎﺭﻱﺀَ ﺟﺎ ﻫﻨﺮﻣﻨﺪ ﭘﮡ ﻧﻤﺎﻳﺎﻥ ﺁﻫﻦ . ﭜﺮﭘﺎﺳﻲ ﺟﻲ ﭔﻬﺮﺍڙﻱﺀَ ۾ ﺍﭘﺎﻳﻞ ﻣﻴﻮﻱ، ڪﮣڪ، ﭼﺎﻧﻮﺭ، ۽ ڪﭙﺎﻫﻪ ﺟﻲ ﻭڪﺮﻱ ﺟﻮ ﻣﺮڪﺰ ﭘﮡ ﺣﻴﺪﺭﺁﺑﺎﺩ ﺁﻫﻲ .
ﻫﻮﺍﺋﻲ ﺍڏﻭ :
ﺍﮘﻲ ﺍﻫﻮ ﭼﮝﻮ ﺧﺎﺻﻮ ﻫﻮﺍﺋﻲ ﺍڏﻭ ﻫﻮ، ﭘﺮ ﻫﻦ ﻭﻗﺖ ﺗﻘﺮﻳﺒﺎً ﺑﻨﺪ ﭘﻴﻮ ﺁﻫﻲ . ﭘﻲ ﺁﺋِﻲ ﺍﻱ ﺍﺗﺎﻥ ﻫﺮ ﻫﻔﺘﻲ ٽﻲ ﺍڏﺍﻣﻮﻥ ﭜﺮﻳﻨﺪﻱ ﻫﺌﻲ . ﺍﭸﺎ ﺑﻪ ڪڏﻫﻦ ﻏﻴﺮ ﭼﺎﺭٽﺮڊ ﺍڏﺍﻡ ﺍﺗﻲ ﻟﻬﻲ ﺳﮕﮭﻲ ﭤﻲ ..
ﻣﺎﮢﻬﻨﮕﺎﺭﻱ :
ﻣﺎﮢﻬﺴﻴﻪ Population ﺟﻲ ﻟﺤﺎﻅ ﮐﺎﻥ ﺣﻴﺪﺭﺁﺑﺎﺩ ﺳﻨﮅ ﺟﻮ ﭔﻴﻮﻥ، ﺍﭴﻮڪﻲ ﭘﺎڪﺴﺘﺎﻧﻲ ﺑﻴﭡڪ ۾ ﺍﭠﻮﻥ ۽ ﺩﻧﻴﺎ ۾ ﭔﻪ ﺳَﻮ ﻧﺎﺋﻮﻥ ‏( 209 ‏) ﻭڏﻱ ۾ ﻭڏﻭ ﺷﻬﺮ ﺁﻫﻲ . ﻫﻦ ﻭﻗﺖ ﺍﻥ ﺟﻲ ﻣﺎﮢﻬﺴﻴﻪ ﻟﮗ ﭜﮗ 1,386,840 ﺁﻫﻲ . ﺣﻴﺪﺭﺁﺑﺎﺩ ﺟﻲ ﺁﺑﺎﺩﻱﺀَ ﺟﻲ ﺍڪﺜﺮﻳﺖ ﻣﻬﺎﺟﺮﻥ ﺗﻲ ﻣﺸﺘﻤﻞ ﺁﻫﻲ . ﺍﻧﺘﻈﺎﻣﻲ ﺍﻋﺘﺒﺎﺭ ﺳﺎﻥ ﺍﭴﻮڪﻮ ﺣﻴﺪﺭﺁﺑﺎﺩ ﺷﻬﺮ ۽ ﺿﻠﻌﻮ ﭼﺌﻦ ﺗﻌﻠﻘﻦ، ﺣﻴﺪﺭﺁﺑﺎﺩ ﺷﻬﺮ، ﻗﺎﺳﻢ ﺁﺑﺎﺩ، ﻟﻄﻴﻒ ﺁﺑﺎﺩ ۽ ﺣﻴﺪﺭﺁﺑﺎﺩ ﭔﻬﺮﺍڙﻱ ۾ ﻭﺭﻫﺎﻳﻞ ﺁﻫﻲ . ﺍﻧﻬﻦ ﻣﺎﻥ ﭔﻦ ﺗﻌﻠﻘﻦ، ﻳﻌﻨﻲ ﭔﻬﺮﺍڙﻱ ۽ ﻗﺎﺳﻢ ﺁﺑﺎﺩ ۾ ﺍڪﺜﺮﻳﺖ ﺳﻨﮅﻱ ﺁﺑﺎﺩﻱﺀَ ﺟﻲ ﺁﻫﻲ ﺗﻪ ﺑﺎﻗﻲ ﭔﻦ ﻭڏﻥ ﺗﻌﻠﻘﻦ ۾ ﺍڪﺜﺮﻳﺖ ﻣﻬﺎﺟﺮﻥ ﺟﻲ ﺁﻫﻲ