بلندی سے کیا مطلب ہے؟
منظر کشی نہیں، اس کے بغیر یہ فیچر نہیں آرٹیکل لگتا ہے۔
سیر کو آنے والے لوگوں کی تعداد کس ذریعے نے بتائی؟
کہیں سے چیک کیا ہے کہ یہ جھیل وائلڈ لائف سینکچوری کا درجہ رکھتی ہے؟ ماہی گیری کا کام نسل پرستی۔۔ یہ غلط ہے۔
محکمہ ثقافت وسیاحت سندھ کی جانب سے سیاحوں کے لئے ہٹ بھی ہیں۔ اس کا ذکر کریں
صفائی کا درست انتظام نہیں۔
آخری پیراگراف میں نامعلوم ذریعہ دیا گیا ہے۔ یہ نام اور پورے تعارف کے ساتھ ہونا چاہئے۔
رپورٹنگ بیسڈ نہیں۔ مشاہد بھی بیان نہیں کیا گیا۔
کینجھر کو انگریزوں نے مزید ڈولپ کیا تھا تاکہ کراچی میں موجود اپنی فوجی چھانونی کو پانی پہنچایا جاسکے۔
فوٹوز بھی چاہئیں ہونگے۔
اچھی کوشش ہے لیکن کچھ چیزیں رہ گئی ہیں۔
File name is wrong. it should be: Qirat Feature MMC-42 Urdu
Referred back
Also write ur name, roll no etc in English in text file
Referred back
Also write ur name, roll no etc in English in text file
فیچر تحریر قرأت محمد شکیل
رول نمبر:2K20/MMC/42(ایم اے پریویس)
کینجھر جھیل
اس دنیا کے مصور نے انسان کو اس دنیا میں بھیجنے سے پہلے اس سانس لینے کے قابل بنانے کے لیے ایک خوبصورت اور ایک پر آسائش گھر بنایا۔اوپر والے نے اس دنیا میں خوبصورت جھیلوں کا بھی نظام بنایا جو انسان اور دوسرے سانس لینے والوں کے لیے قدرت کا انمول تحفہ ہے۔ اسی طرح کینجھر جھیل پاکستان کی خوبصورت جھیل بھی سندھ کے اور دوسرے سیاحوں کے لیے ایک اہم تحفہ ہے۔
کینجھر جھیل اولڈ نیشنل ہائی وے پر ضلع ٹھٹھہ میں واقع ہے یہ ایک پرانی اور تاریخی جھیل ہے جو پاکستان میں میٹھے پانی کی دوسری بڑی جھیل ہے۔ یہ جھیل کراچی اور ٹھٹھہ ضلع کے لیے پانی کا ذریعہ بھی ہے۔ کینجھر جھیل ٹھٹھہ سے تقریباً 18کلو میٹر کی دوری پر ہے۔ جو کہ کرلی جھیل کے نام سے بھی جانی جاتی ہے۔ کینجھر جھیل کی بلندی 25کلو میٹر یعنی 49فٹ ہے۔ اس جھیل کی لمبائی 24کلو میٹر اور چوڑائی6کلو میٹر ہے۔ یہ ایک بڑی تازہ پانی کی جھیل ہے اور اسی وجہ سے سیاحوں میں کافی مقبول ہے۔ یہ جھیل سندھ کے مشہور صوفی شاعر شاہ عبداللطیف بھٹائی کے کلام نوری کی وجہ سے بھی بہت سے ممالک میں جانی جاتی ہے۔
کینجھر جھیل ایک مشہور سیاحی مقام ہے اس جھیل پر نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر سے بھی لوگ اپنے گھر والوں کے ساتھ چھٹیاں منانے کے لیے جھیل کا رخ کرتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق کینجھر جھیل پر ایک ہفتے میں 17000لوگ سیر کرنے آتے ہیں۔ تیراکی، مچھلی کے شکار اور بوٹنگ سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ کینجھر جھیل میں موٹر پر چلنے والی چھوٹی کشتیاں ہی سیاحوں واحد تفریح ہے۔ لوگ صرف تفریح کرنے کے لیے نہیں بلکہ جھیل کے بیچوں بیچ بنا نوری جام تماچی کے مزار پر حاضری پیش کرتے ہیں اور جھیل پر رات گزارنے کے لیے مختلف رہائش گاہ اور کھانے پینے کے لیے ہوٹل بھی موجود ہیں مگر سیاحت کے لیے وافر سہولیات نظر نہیں آتیں۔
اس کے علاوہ محکمہ جنگلی حیات سندھ کے قوانین کے تحت کینجھر جھیل کو جنگلی حیات کی مکمل پناہ گاہ یعنی وائلڈ لائف سینکچوری کا درجہ بھی حاصل ہے۔ سنکچوری قرار دینے کے بعد کوئی فرد آب گاہ کے گرد رہائش اختیار نہیں کرسکتا جبکہ گھاس پھوس اور پودوں کو نقصان پہنچانا جھیل سے تین میل تک فائر کرنا اور پانی کو گندہ کرنا قانوناً جرم سمجھا جاتا ہے۔ یہاں پر بیشتر پرندے اڑ کر آتے ہیں خاص طور پر وہ پرندے جو ملک میں ٹھنڈ کے باعث زندہ نہیں رہ پاتے۔ خاص طور پر بسرا کے وہ جانور پرندے ہزاروں میل کا سفر کرکے اس جھیل کو اپنا بسیرا بناتے ہیں۔ مگر بد قسمتی سے یہ جھیل اس وقت سخت ماحولیاتی مسائل کا شکار ہے۔
جھیل کے قرب و جوار میں رہنے والے ہزاروں مچھیروں کے روزگار کا واحد ذریعہ کینجھر جھیل ہے۔ جو مچھلیاں پکڑ کر روزگار کماتے ہیں۔ اس کے علاوہ جھیل میں اگنے والے سرکنڈوں کو کاٹ کر اس کی چٹائی اور جھونپڑیوں کی چھتیں بنانے والے ہزاروں خاندانوں کی روزی روٹی کا زریعہ بھی کینجھر جھیل ہی ہے۔ مزید اس کے بارے میں جاننے کے لیے وہیں کے رہنے والے ایک مچھیرے سے گفتگو کا سلسلہ جب شروع کیا تو اس کے خیالات کچھ اس طرح کے تھے۔
کینجھر جھیل کے ارد گرد کے علاقوں کی تقریباً آبادی ایک لاکھ کے قریب ہے۔ کینجھر جھیل پر ہمارا کام روایتی ماہی گیری برادری ہے ہم یہاں اپنے خاندان کے ساتھ رہتے ہیں۔ ماہی گیری کا کام نسل پرستی سے طویل عرصے سے ہمارا خاندانی کام ہے۔
کینجھر جھیل پر مچھلیاں پکڑنے والے سردار کینجھر کے نام سے جانے جاتے ہیں جس کو جام تماچی کو بطور انعام پیش کی تھی اس کے بعد صوفی شاعر کی جگہ بن گئی جس پر شاہ عبداللطیف بھٹائی نے بھی کلام لکھے۔ جام تماچی نے اس جھیل پر ایک بڑی بندرگاہ بنائی تھی جہاں پر وہ آرام کرنے کے ساتھ ساتھ جھیل کا نظارہ بھی کرتا تھا۔ وہاں اپنے آنے جانے والے مسافروں اور ان کی کشتیاں دیکھ کر لطف اندوز ہوتا تھا۔ جھیل کے قریب ایک گھر میں رہنے والی مچھیرے کی بیٹی نوری نے جب اپنا نقاب ہٹایا تو اس کی خوبصورتی کا دیوانہ ہوگیا اور کینجھر کے ذریعے نوری کے گھر رشتے کا پیغام پہنچایا اور نوری سے شادی کرکے اس جھیل کانام کینجھر رکھ دیا۔ جس کے بعد یہ جھیل کینجھر کے نام سے مشہور ہوگئی۔ شاہ عبداللطیف بھٹائی نے بھی اپنی کتاب شاہ جو رسالو میں بھی کینجھر جھیل اور اس داستانِ محبت کا اظہار کیا ہے۔ جھیل کے ساحلی علاقوں میں کوئی بھی ذرائع آمدو رفت کا ذریعہ نہیں۔ جام تماچی کے مزار پر اور دوسرے چھوٹے شہروں تک رسائی صرف کشتیوں کی ذریعے ہی ممکن ہے۔ آٹھ سے دس افراد کے لیے موٹر بوٹ تقریباً 500سے2000روپے کرائے پر دستیاب ہوتی ہے۔ جب کہ رہنے کے لیے محکمہ سیاحت کی جانب سے کینجھر جھیل ریزورٹ بنایا گیا ہے۔ جبکہ پاکستان آرمی کا ڈیزرٹ ریزارٹ ہاک بھی رہائش کے لیے میسر ہے۔
اور اب دیکھا جائے تو یہ جھیل حکومت کی عدم توجہ کی وجہ سے لاوارث ہے۔ سیر و تفریح کی غرض سے آنے والے لوگوں سے جب میں نے کینجھر کی سہولیات کے بارے میں پوچھا تو ان کے اظہارِ خیال کچھ یوں تھے۔ "یہاں کوئی سہولت میسر نہیں ہمارے لیے اور نہ ہی ہمیں لائف جیکٹس دی جاری ہیں لوگ ایسے ہی پانی میں جارہے ہیں جو کہ انتہائی خطرناک ہے۔ یہاں ٹورسٹ کے لیے کوئی انتظامات نہیں۔ ابھی حال ہی میں نوری کے مزار پر جاتے ہوئے کینجھر میں ایک خاندان کی دو بہنوں سمیت تین عورتیں ڈوب کر جاں بحق ہوگئیں۔ کینجھر جھیل نیلے صاف میٹھے پانی والی جھیل جو کہ کراچی اور ٹھٹھہ کو میٹھا پانی فراہم کرنے کا ذریعہ ہے جو کہ آہستہ آہستہ منچھر جھیل کی طرح زہریلے پانی کی جھیل کی طرف جاتی نظر آرہی ہے۔ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ فیکٹریوں کا گندہ اور زہریلا پانی کینجھر میں چھوڑ کر زہریلی کی جارہی ہے۔ جس کے خلاف مقامی لوگ اور مچھوارے جن کا گزر جھیل پر ہے وہ سڑکوں پر نکل آئے تھے لیکن حکومت نے کوئی نوٹس نہیں لیا۔
No comments:
Post a Comment