Showing posts with label Urdu. Show all posts
Showing posts with label Urdu. Show all posts

Monday, May 11, 2020

Jaweria Salahuddin Profile Urdu

We had to search and write ur roll no here
Do no send again unless asked
۔ لکھنے والے کون ہے؟ کس کلاس کا ہے کیا رول نمبر ہے؟
۔ پروفائیل میں فوٹو بھی ہونا چاہئے۔
 ۔ فائیل نیم غلط ہے تیسری اسائنمنٹ پر بھی  فائیل نیم اور اسٹوڈنت کا نام غائب۔۔۔
۔ انگریزی الفاظ استعمال نہ کریں 
۔ صرف شخصیت سے انٹرویو ہے۔ پرائمری ڈیٹا میں ایک ہی سورس استعمال کیا گیا ہے۔ اس کومزید رپورٹنگ بیسڈ ہونا چاہئے تھا۔ 
۔دوبارہ نہ بھیجا جائے جب تک کہ ہدایات نہ دی جائیں۔ 
Sarfraz Jokhio
سرفراز احمد جوکھیو:۔
کوئی انسان چھوٹا بڑا نہیں ہوتا ہر انسان کے اندر کوئی نہ کوئی قابلیت چھپی ہوتی ہے۔ایسے ہی ایک چھوٹے گاؤں میں پیدا ہونے والا بچہ سرفراز احمد جوکھیو کو بچپن سے ہی آگے بڑھنے کا بہت شوق تھا سرفراز احمد جوکھیو شہر خیرپورناتھن شاہ تعلقہ گاؤں گوجو میں 1962 میں پیداہوئے۔
سرفراز احمد کا تعلق ایک چھوٹے گاؤں سے تھا۔سرفراز احمد نے پرائمری سے لے کر میٹر تک کی تعلیم اپنے گاؤں سے حاصل کی۔لیکن سرفراز احمد صرف یہیں نہیں رُک جانا تھا سرفراز میں آگے بڑھنے کا جذبہ اور لگن تھی۔سرفراز احمد جوکھیو کے چاچا ایک ڈاکٹر تھے۔جس کو دیکھ کر سرفراز کو شوق ہوا وہ بڑھے اور ایک قابل انسان بنے۔سرفراز احمد جوکھیوں کے والد ایک تپے دار تھے اورسرفراز احمد کا ایک بڑا بھائی ڈاکٹر اور ایک سول انجینئر ہے۔سرفراز احمد نے جب انٹراچھے(Grade) میں پاس کیا پھر سرفراز نے مہران یونیورسٹی جانے کا فیصلہ کیا اور سرفراز احمد کا ایڈمنش پیٹرولیم گیس کے شعبے میں ہوا۔سرفراز احمد اپنی کلاس میں سب سے ہوشیار شاگرد تھا۔وہ یونیورسٹی میں ہر سال پہلی پوزیشن حاصل کرتا تھا اور سرفراز احمد کی ایک بات اپنی یونیورسٹی میں بہت مشہور تھی وہ امتحان میں سارے سوالوں کے جوابات دیتا کوئی چوائس کے سوال نہیں چھوڑتا تھا اور اساتذہ (Challange) کرتا تھا(Cheak in Dive Q) وہ اپنی یونیورسٹی میں بہت ہوشیار تھا اور سب اساتذہ سرفراز سے محبت اور عزت کرتے۔سرفراز احمد ہوشیار ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے اساتذہ کو بہت عزت و احترام دیتا تھا۔سرفراز احمد کا کریئر اس کی اپنی یونیورسٹی سے شروع ہوا۔سرفراز نے جب اپنی انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کی تو سرفراز کو یونیورسٹی کے (Vice Chancellor) نے سرفراز احمد کو نوکری کی آفر کی جو سرفراز نے منظور کرلی اورپھر مہران یونیورسٹی میں لیکچر شپ شروع کردی لیکن سرفراز احمد جوکھیوں کو بس یہاں ہی نہیں رُک جانا تھا سرفراز کا تعلیم حاصل کرنے کے رجحان اور چاہ نے سرفراز کو اورآگے بڑھایا سرفراز احمد نے اپنے نام کی طرح خود کو سرفراز کیا اور عزت کی کمائی سرفراز کی لیکر شپ جاری تھی پھر سرفراز نے امریکہ یونیورسٹی Ocama Homa میں اسکالر شپ کے لئے(Apply) کیاPh.D کی ڈگری حاصل کرنے کے لئے اور سرفراز کو اسکالرشپ مل گئی اوروہ یونیورسٹی کوخیرباد کہہ کر 2سال کے لئے امریکہ چلے گئے اور جب سرفراز احمد نے اپنی ماسٹر کی ڈگری حاصل کرلی تو سرفراز کو سعودی عرب کی ایک مشہور کمپنی سے نوکری کی آفر آئی جو سرفراز نے منظور کرلی اور10 سال سعودی عرب میں کام کرنے کے بعد سرفراز اپنے ملک پاکستان واپس آگیا۔سرفراز احمد کو اپنے ملک اور اپنے صوبے سے پیار تھا تو پھر سرفراز نے یہیں رہہ کر اپنے صوبے کے لئے کچھ کرنے کا فیصلہ۔سرفراز احمد نے پھر سے مہران یونیورسٹی میں نوکری کرنا شروع کی جو وہ12سال پہلے چھوڑ کر گیا تھااور اب سرفراز احمد مہران یونیورسٹی میں پیٹرولیم گیس کے شعبے میں پروفیسر ہے اور Ph.D کے شاگرد وں کو تعلیم سے سرفراز کررہے ہیں۔سرفراز احمد نے بتایا کہ ان کو پڑھائی کے علاوہ کرکٹ کا شوق بھی تھا وہ اپنے دوستوں کے ساتھ اکثر چھٹی کے دن کرکٹ کھیلنے جاتے تھے۔سرفراز احمد کا کہنا ہے کہ ہمارے ملک کے نوجوان ہمارے ملک کا سرمایہ ہیں۔شاگردوں کو چاہیے کہ دل اور چاہ سے تعلیم حاصل کریں اور اپنے ملک کے مستقبل کو روشن کریں۔سرفراز احمد اپنے کام کے ساتھ ساتھ اپنے سب شوق کو بخوبی پورا کرتے ہیں اور سرفراز احمد کو آج بھی اپنے گاؤں اور ان کے لوگوں سے محبت ہے اور وہاں کی زندگی آج بھی بہت پسند ہے وہ آج بھی چھٹیوں میں اپنی فیملی کو وہاں لے جاکر وہاں چھٹیاں گزارتا ہوں۔
سرفرازاحمد جوکھیوں کا کہنا ہے کہ کامیابی امیر یا غریب ہونے سے نہیں آتی چاہت،محنت اور شوق سے ملتی ہے۔انسان کی محنت اور چاہ ہی اس کو اس کے مقصد تک پہنچادیتی ہے۔ہمارے نوجوانوں کو چاہیے کہ تعلیم دل اور محنت سے حاصل کریں اور اپنے صوبے اور اپنے ملک کے لئے آگے بڑھیں۔
سرفراز احمد جوکھیوں کا کہنا ہے کہ کامیابی کے اس سفر میں مجھے بہت سے مشکلات پیش آئی پر میں کبھی پیچھے نہیں ہٹا اور نہ گھبرایا ہمیشہ ہمت سے کام لیا۔میری کامیابی کے پیچھے میرے ابو کا ہاتھ ہاتھ ہے انہوں نے ہر جگہ میرا ساتھ دیا اور مجھے سپورٹ کیا اور سرفراز احمد نے یہ بھی بتایا کہ میں نے اپنی زندگی کے اس سفر میں ایک بات سیکھیہے کچھ بھی چیز آپ کے لئے ناممکن نہیں ہوتی جب تک آپ اس کو خود اپنے لئے نا ممکن نہ بنالے اگر آپ کا جذبہ اور شوق ہے تو آپ اپنے ہر مقصد میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔سرفراز احمد جوکھیوں نے کہا تعلیم ہر انسان کے لئے ضروری ہے تعلیم انسان کو باشعور بناتی ہے اور زندگی گذارنے کا صحیح طریقہ بتاتی ہے اور صحیح اور غلط ہونے کا فرق ہمیں تعلیم اورشعور سے ہی پتہ چلتا ہے۔

The practical work is carried under supervision of Sohail Sangi, 
at Media and Communication Department, University of Sindh

#JaweriaSalahuddin, 

Tuesday, May 5, 2020

Aisha Aslam Profile Urdu

Photo is missing
Subject line and file name not proper,
Paragraphing not observed
To be checked

عائشہ  محمد اسلم 
استاد : سر سہیل سانگی
رول نمبر : 2K20/MMC/9
پرو فائل:  صدف اشرف 
چھوٹے ذہنوں میں ہمیشہ خواہشیں اور بڑے ذہنوں میں مقاصد ہوا کرتے ہیں ایسے ہی صدف اشرف ان با شعور خواتین میں سے ہیں جو کے محض اپنے لیئے نہیں دوسروں کیلئے محنت و مشقت اور جدو جہد کرتی رہی ہیں ان کا تعارف اسم گرامی صدف اشرف اور ان کی پیدائش 1979 میں حیدرآباد کے شہر لطیف آباد میں ہوئی مامسٹر (اکنامکس) میں کیا پاکستان میں شعبے سے منسلک رہیں نا موار شخصیات دیکھتی اور ان کے بارے میں پڑھتی لیکن ان میں سے کچھ شخصیات نے اپنی زندگی کا بہت بڑا حصہ اس شعبے کی خدمت میں گزارا اور گزار ہی ہیں ان میں سے ایک صدف اشرف اعلیٰ معیار کہ تعلیم اور سب سے منفرد اخلاق کی مالک بھی ہیں صدف اشرف شروع سے ہی انتظامیہ اموار اور درس و تدریس کی صلا حیتوں سے معمور ہیں اچھے گھرانے سے تعلق رکھنے کے باوجود یا اپنے والد کی طبیعت خراب کی وجہ سے بہت ذہنی طور پر پریشان رہتی تھیں اپنے آپ کو اچھا اور قابل بنانے کی لگن ان پے ایسے سوار تھی کے اپنے والد کی طبیعت خراب اور گھر میں پریشانی ہونے کے باوجود یہ ہمیشہ یہی سوچتی رہتی کے اعلیٰ تعلیم کیسے حاصل کی جائے کسی مقام پے پہنچنے کے لیئے کیاجدو جہد کی جائے میں میٹرک کلاس کی تعلیم حاصل ہی کررہی تھی کے میرے والد انتقال کر گئے ان کے والد کے بعد گھر کو سنبھالنے والا کوئی نہیں تھا تو اس وقت میں نے کہاں کہاں نوکریاں نہیں کیں تعلیم اور باشعور خواتین بننے کی لگن صدف اشرف نے ایک ہی وقت میں نوکری اور اعلیٰ تعلیم حاصل کی تعلیم مکمل ہونے کے بعد کچھ اچھے محکمہ میں نوکری کے لیئے Applyکیا لیکن یہ کسی محکمہ کا انٹرویو پاس نا کرسکیں اس کے باوجود انہوں نے ہمت نہیں ہاری ہمت و حوصلے کے ساتھ کام لے کے خود کو آگے بڑھاتی رہیں اسی حوصلے سے آخر کار اپنی منزل پے فائض ہوئیں اور اسی ہمت و حوصلے، محنت و مشقت کے ساتھ بروئے کار اپنے عمل میں لائی ہیں اس لگن و جستجو کے ساتھ اپنی شخصیت کو مزید نکھارہ اُن خواتینوں میں سے خود عالمی خواتین بنی اور اپنا تعارف اُن خواتین سے مختلف خصوصیات رکھتے ہوئے اپنی اس دورے زندگی کا متعارف کروایا صدف اشرف ایسی خواتین بھی رہیں کے ماسٹر (اکنامکس) 2005میں کیا ماسٹر پورا ہونے کے بعد صدف اشرف نے سوشل ورک کرنا شروع کیا ایک وقت میرے بہت برُ ے دن،برُ ے حالات دیکھے ہیں کہ اب دل کی لگن یہ تھی کے پڑھ لکھ کے منزل پے فائض ہوں اور ایک زندہ مثال قائم کروں جو بے بس، مجبور، لاچار گھرانے سے تعلق رکھنے والی لڑکیاں موجود ہیں وہ اپنے آپ کو کسی سے کمتر نہیں سمجھیں وہ بھی اسی محنت و مشقت کے ساتھ گھر والوں کو Supportکرسکتی ہیں اُن کا بہت اچھے بیٹے جیسا سہارا بن سکتی ہیں۔ 
علم کا مطلب ڈگریاں حاصل کرنا نہیں "بلکے "سوچنے سمجھنے کہ صلاحیت کو بڑھانا ہے۔ ڈگری کا مل جانا اور منزل کو پالینا ہی سب کچھ نہیں بلکہ اخلاقی طور پر بھی اعلیٰ اخلاق کے مالک ہونا لازمی ہے اور اخلاق سے اپنی زبان کی میٹھاس کی وجہ سے اپنے سینئر زکے دلوں میں جگہ بنائی ہوئی ہے۔ انسانیت کی خدمات کے حوالے سے بھی مشورے میں اکثر فلاحی کام کرتی نظر آرہی ہیں اپنی 42سالہ زندگی میں سے 20سال شعبہ (اکنامکس) کو دیا۔ عوام کے دلوں اور ذہنوں پر حکمرانی کرتی نظرآرہی ہیں زندگی میں اُ تار چڑھاؤ آنے کے باوجود اپنی زندگی کو پُر عزم طریقے سے گزاررہی ہیں۔ فرق تو صرف اتنا ہے تیری اور میری تعلیم اور اخلاق میں تونے استاد سے سیکھا میں نے حالات سے۔۔


Key words: Sadaf Asharaf, Hyderabad, Latifabad, 

The practical work is carried under supervision of Sohail Sangi, 
at Media and Communication Department, University of Sindh

Qirat khan Profile Urdu

Writer's name in medium is missing
Revisit first para , how it is different, no mention, should have qualified this sentence 
Mind spelling like  واکیل 
Do not pu inverted comma to proper noun / names 
Do not use صاحب, its not appreciated in print media, at the most at one place 
U wrote  بہت سی روکاوٹوں , describe 
What other people say? 
its too long 1700 words 
Decide which  name u want to adapt: Qirat Khan, Qirat Shakeel, Qirat M. Shakeel. 



Qirat khan
2k20/MMC/42
Profile
Urdu 
MA previous    
   
          " محمد اویس شیخ" 

ویسے تو حیدرآباد میں بہت سے واکیل ہیں لیکن محمد اویس شیخ جیسے نامی گرامی واکیل اپنی مثال آپ ہیں 

پاکستان میں رہنے والے محمد اویس شیخ کا تعلق حیدرآباد کے شہر ریشم بزار سے ہے محمد اویس شیخ بتاتے ہیں کہ میں کم عمر میں ہی ہائی کورٹ کا واکیل بن گیا تھا اس مقام پہ میں اپنی محنت، لگن،جدوجہد اور اپنے والد صاحب کی وجہ سے اج لوگوں کی نظر میں قابل عزت و احترام ہوں میرے والد صاحب جن کی وجہ سے میں اج اس مقام پہ ہوں چند ماہ پہلے ہی رضائے الہی سے انتقال کر گئے

واکیل صاحب کہتے ہیں میرے خاندان میں کوئی تعلیم یافتہ نہیں تھا مجھے بچپن سے ہی واکیل بننے کا شوق تھا لیکن گھر کے حالات اور اخراجات کی وجہ سے میں مایوس ہوجاتا تھا کیونکہ مجھے لگتا تھا تعلیم صرف پیسے والے لوگ ہی حاصل کر سکتے ہیں دل کہتا تھا دنیا خرید لوں جیب کہتی تھی بکواس نہ کر لیکن انسان اپنی محنت اور کوششں سے نہ ممکن کو بھی ممکن میں بدل سکتا ہے اگر ارادے پختہ اور مقصد کو پورا کرنے کا جوش و ولولہ ہو تو 

مقبولیت،شہرت اور واکیل بننے کا اس حد تک شوق تھا کہ بچپن کے کھیلنے کودنے کے دنوں میں ہی واکیل صاحب اپنے والد کے دوست "غلام مرتضٰی" کے ساتھ کورٹ جایا کرتے تھے

میں نے واکیل صاحب سے پوچھا آپ اس شعبے میں کیسے آئے 
واکیل صاحب بتاتے ہیں کہ میں اس شعبے میں حادثاتی طور پہ آیا تھا میرا خاندان سائیکل کے کاروبار سے وابستہ تھا میرے والد صاحب کو سائیکل مارکیٹ کے چند افراد نے پریشان کیا ہوا تھا جس سے میرے والد صاحب نے ان سے تنگ اکر ان کے خلاف کورٹ میں کیس داخل کر دیا لیکن میرے والد کے پاس اس وقت کیس لڑنے کے لییاور واکیل کرنے کیلئے پیسے نہیں تھے تو انھوں نے مجھ سے درخواست لکھوا کر کورٹ میں جمع کروائی کیونکہ میری رائٹنگ کو میرے والد صاحب کے دوست غلام مرتضٰی جو کہ خود بھی ایک واکیل تھے انھوں نے بہت پسند کیا اور انھوں نے خواہش ظاہر کی کہ وہ مجھے کورٹ ہی کام کرنے کے لیے چھوڑ دیں بعد ازیں میرے والد صاحب کورٹ سے کیس بھی جیت گئے اور والد صاحب نے معاف بھی کر دیا اس دن سے اب تک میں کورٹ سے وابسطہ ہوگیا 

واکیل صاحب کا خواب تھا کہ وہ قائداعظم کی طرح وکالت کریں قائدعظم ان کے آئیڈیل شخصیت ہیں جو کہ اپنے وقت کے بہت قابل اور مانے ہوئے واکیل تھے 

تعلیم حاصل کرنے میں واکیل صاحب کو بہت سی روکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا لیکن وہ اپنے مقصد سے پیچھے نہیں ہٹے کہتے ہیں میرے پختہ ارادوں نے میری تقدیر بدل دی میں تعلیم بھی حاصل کرتا رہا اور ساتھ میں بڑے بھائی ہونے کی حیثیت سے اپنے بہن بھائیوں کی ذمہ داری بھی سمبھال رہا تھا میں سارا دن سائیکلوں کا کام کرتا تھا اور رات میں تھک ہار کے پڑھائی کرتا تھا تاکہ میں اپنے مقصد میں کامیاب ہوجاؤں اور بہن بھائیوں کے اخراجات بھی پورے کر سکوں 

میں نے واکیل صاحب سے پوچھا اپنے L.L.B  کہاں سے کیا 
واکیل صاحب بتاتے ہیں میں نے L.L.B  گورنمنٹ جرنل LOW کالج سے کیا اور بحثیت واکیل اپنے اپکا اندراج کروایا اور باقائدہ وکالت شروع کردی 

میں نے واکیل صاحب سے پوچھا آپ وکالت میں کس چیز میں مہارت رکھتے ہیں 
میں زیادہ تر پروپرٹی جائیداد کے کیسسز میں مہارت رکھتا ہوں لیکن آج کل کے ماحول کو دیکھتے ہوئے میں نے سیول کیسسز اور فیملی کیسسز بھی لڑنا شروع کر دئیے اور اللٰہ نے ان میں مجھے بہت کامیابی دی 

میں پہلے طلاق کی تحریر کو بخوشی کرتا تھااور ایسے کیسسز میں بہت دلچسپی بھی لیتا تھا کیونکہ اس میں فیس اچھی ملتی تھی جب میں نے یہ سنا کہ طلاق وہ جائز عمل ہے جس سے اللٰہ کا عرش ہل جاتا ہے تو یہ سن کر مجھ پر بہت خوف طاری ہوگیا اور میں نے یہ تہیہ کر لیا کہ میں اب صرف روپے پیسے کے خاطر کسی کا گھر خراب نہیں کرونگا اور نہ ہی کوئی ایسا عمل کرونگا جس سے اللٰہ ناراض ہو اس کے بعد اب جب کبھی بھی میرے پاس میاں بیوی کے جھگڑوں کا کیس آتا ہے تو میری بھر پور کوششں یہ ہوتی ہے کہ میں ان میں صلح کرواسکوں اور الحمداللٰہ اللٰہ نے مجھے اس مقصد میں بہت کامیابی بھی دی 

جسمانی طور پہر چھوٹے قد کے بلند حوصلوں والے واکیل صاحب کے پاس ویسے تو بہت کیسسز ائے جن پر وہ خود بھی حیرت ذدہ ہیں ایک مرتبہ ایک شخص اپنی بیوی کو طلاق دینے کا پکا ارادہ کرکے آیا واکیل صاحب کہتے ہیں  میں نے اسے بہت اچھی طرح سمجھایا میری پوری کوششں تھی کہ میں ان کا رشتہ بچانے میں کامیاب ہوجاؤں اور بلکل ایسا ہی ہوا اس شخص کے بات سمجھ اگئی اس شخص نے فوری توبہ کی اور گھر روانہ ہوگیا کچھ دن بعد مجھ سے ملنے آئے تو وہ بہت دعائیں دے رہا تھا  کہ اگر اپ نے نہ سمجھایا ہوتا تو میرے بچے دربدر ہوجاتے اور میرا گھر اجڑ جاتا 

اسی طرح ایک اور کیس ایا جس میں نہ تو بیوی شوہر کے ساتھ رہنا چاہتی تھی نہ شوہر بیوی کے ساتھ وہ چاہتے تھے جلد از جلد طلاق ہوجائے میں نے اس شخص کو بہت سمجھایا پر نہ وہ مانا نہ اسکی بیوی ان کے بچے معصومیت سے اپنے والدین کا چہرہ دیکھ رہے تھے میں نے ان ہی معصوم بچوں کا واسطہ دے کر کہا طلاق دے دینا تو بہت اسان ہے مگر اس کے اثرات سے دو چار ہونا سب سے بڑا صبر آزما کام ہے حضور? نے بھی اسے اچھا فعل قرار نہیں دیا اللہ کے ہاں حلال کاموں میں سب سے زیادہ قابل نفرت کام طلاق ہے پھر بھی اس شخص کو کہاں اگر تم اب بھی طلاق دینا چاہتے ہو تو اس شخص کو میں نے ایک تجویز دی کہ شریعت میں ایک طلاق کی گنجائش ہے تاکہ اپ دوبارہ گھر بسا سکو دونوں میاں بیوی سوچتے رہے اور کچھ ہی دیر بعد گھر روانہ ہو گئے تھوڑی ہی دیر بعد فون کر کے کہنے لگے واکیل صاحب ہم اپ کے شکر گزار ہیں اپ نے ہمارا گھر بکھرنے سے بچا لیا 

دوسری جانب واکیل صاحب کے بارے میں یہ بھی مشہور ہے کہ میں سودی تحریر نہیں کرتا اور نہ ہی کسی کو کرنے دیتا ہوں اسکی وجہ یہ ہے کہ میں فارع اوقات میں اسلامی کتب کا مطعلہ کرتا رہتا ہوں اور اپنے پیشے سے متعلق احقام الہی کو سامنے رکھتا ہوں جسں دن میں نے یہ پڑھا اور متعدد مفتیانے اور علمائے کرام اور علماء   سے سنا کہ سود اللہ سے ایک جنگ ہے اور اسکو تحریر کرنے والا اسکو لانے پہچانے والا اسکی لین دین کرنے والا وہ سب سود میں شامل ہے یہ سن کر مجھ پر ایک انجانہ سہ خوف طاری ہوگیا اور میں نے اس گندے کام سے توبہ کرلی اور لوگوں کو بھی اسکے بارے میں بتانا شروع کیا جس پر ان لوگوں نے بھی میری تائید کی اور اس تحریر سے توبہ کرلی اور اج اللہ کا شکر ہے کہ میرے حلقائے احباب میں کوئی بھی یہ کام نہیں کرتا 

لہذا پیشہ چاہے کوئی بھی ہو اگر کوئی شخص ایمانداری اور دیانتداری سے شریعت کے احکام کو سامنے رکھتے ہوئے کام کریں تو اللہ کی مدد ضرور اسکے ساتھ ہوتی ہے 

"کامیاب لوگ اپنے فیصلوں سے دنیا بدل دیتے ہیں اور کمزور لوگ دنیا کے ڈر سے اپنے فیصلے بدل دیتے ہیں "

شہرت کی بلندیوں کو چھونے والے واکیل صاحب نے اپنے ہی بیٹے کو اپنا شاگرد منتخب کیا انکا کہنا ہے کہ میں اپنے بیٹے کو بھی اسی مقام پہ دیکھنا چاہتا ہوں جس مقام پہ میں ہوں 

پر وقار نرم مزاج شخصیت محمد اویس شیخ بتاتے ہیں میرے پاس اگر کوئی غریب اور مجبور شخص اپنا مقدمہ لیکر آتا ہے تو میں سب سے پہلے یہ جاننے کی کوشش کرتا ہوں کہ وہ جو مقدمہ میرے پاس لیکر ایا ہے کیا وہ واقعے اس سے تعلق رکھتا ہے کیا وہ واقعے سچ بول رہا ہے اور مجبور ہے اور وہ واقعی حق پر ہے یعنی اسکا کیس واقعی میں سچا ہے تو میں بلا مواضع ہرطریقے سے اور جہاں تک جانا ہوا وہاں تک جاکر اس کی اپنے خرچے سے ہر ممکن مدد بھی کرتا ہوں اور اسکی مالی  معاونت بھی کرتا ہوں 

دلچسپ بات یہ ہے کہ واکیل صاحب واکیل ہونے کے ساتھ فن خطاطی بھی کرنا جانتے ہیں اور اب انکی خواہش ہے کہ وہ L.L.M اور PH.D  کریں 

واکیل صاحب کہتے ہیں میں محنت کرنے سے کبھی نہیں گھبراتا میں بچپن سے بہت محنتی ہوں محنت سے انسان کی عزت و توقیر میں اضافہ ہوتا ہے 

دن ہو یا رات میرے گھر کے دروازے چوبیس گھنٹے مدد کے لیے کھلے رہتے ہیں کوئی تعلیم کے سلسلے میں دروازے پہ دستق دیتا ہے تو کوئی گھریلوں میاں بیوی کے لڑائی جھگڑے اور دیگر مسلوں کے لیے  دستق دیتا ہے 

لوگوں کو لگتا ہے کہ وکالت کے شعبے میں بہت ہی آسانیاں ہیں نہ ہی کوئی وزن اٹھانا نہ ہی کوئی کپڑے میلے اور نہ ہی کوئی جسمانی مشکت لیکن یہ کام وزن اٹھانے اور جسمانی مشکت سے زیادہ پیچیدہ اور بھاری ہے کیونکہ اس کام میں دماغ کو اور اپنے اپکو حا ضر و ناضر رکھنا پڑتاہے شروع شروع میں تو میں نے اس کام کو باقائدہ سیکھنے کے لیے گرمی سردی بارش اندھی ہو توفان میں بھی گھر سے باہر نکل کر اپنی ڈیوٹی پہ موجود رہتا تھا میں نے اس دوران میں لوگوں کی کچھ باتیں سنی کئی لوگوں کی کڑوی باتوں کو بھی بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ برداشت کیا 

واکیل صاحب ہر وقت اپنا فن دینے کو تیار رہتے ہیں کہتے ہیں کہ تعلیم سے کوئی محروم نہ رہے میں جب آفس سے گھر اتا ہوں تو میری کوشش ہوتی ہے کہ میں آن لائن بچوں کو پڑھاوں 

میں کبھی اج کے کام کو کل پہ نہیں چھوڑتا اور مدد کرنے سے کبھی پیچھے نہیں ہٹتا یہی وجہ ہے کہ میں لوگوں کے دلوں میں راج کر رہا ہوں 


Muhammad Awais Shaikh, Hyderabad, Lawyer, 

The practical work is carried under supervision of Sohail Sangi, 
at Media and Communication Department, University of Sindh

Saturday, May 2, 2020

Sarfaraz Noor Profile Urdu

BO1 is inpage's templete format, not original.
Its 1200 words, this length can only be for magazine, for newspaper we have 600 plus words
Any way its ok
further will be checked
Profile-Sarfaraz Noor-MMC50-Urdu

فخر دادو۔زاہد مہمود بھٹی
جس طرح سورج اپنی روشنی دیتے ہوئے، چھوٹا بچہ اپنی مسکراہٹ دیتے ہوئے اورپھول اپنی خوشبو بکھیرتے،چھوٹے بڑے امیر غریب کا فرق نہیں دیکھتا اسی طرح قدرت فن اور صلاحتیت بھی کسی اونچ نیچ کا فرق نہیں دیکھتی۔ایسی ہی خداداد صلاحیتیں ضلع دادو میں 20 مارچ 1988 کو پیدا ہونے والے رائیٹ آرم لیگ اسپنر زاہد مہمود میں کوٹ کوٹ بھری ہوئی ہیں۔ 

سندھ کے ویٹنام شہر دادو میں پیدا ہونے والے زاہد مہمود نے پرائمری سے ہی اپنے آنے والے ابھرتے ٹیلینٹ کو بھانپ لیا جب وہ اپنے بڑے بھائی خالد مہمود جو کہ اس وقت رائل کرکٹ کلب کی طرف سے کھیلا کرتے تھے، کرکٹ کٹس اور پیڈ وغیرہ پہن کر شوقیہ طور کرکٹ کھیلا کرتے تھے۔  ان کا یہ شوق میٹرک کلاس میں آکے پروان چڑھا جب اسے اپنی سکول کی ٹیم میں کم عمر ہونے کی وجہ سے شمولیت نہ مل سکی، یہی وہ لمحہ تھا جب زاہد مہمود نے دل میں تہیہ کر لیا کہ ایک دن وہ بھی کرکٹ کے میدان میں اپنا نام بنائینگے۔ کہتے ہیں نا جہاں چاہ وہاں راہ۔اسی چاہ کو عملی جامہ پہنانے کے لئے انہوں نے اسی رائل کلب میں شمولیت کرلی۔ اپنے بڑے بھائی سے متاثر ہونے والے زاہد نے بتایا کہ اس وقت ان کے کرکٹ میں آئیڈیل مرحوم عابد اعوان ہیں جو کہ اسی کلب کے بیٹسمین رہ چکے ہیں جن کی باقائدااسٹائلش بیٹنگ کے انداز نے انہیں بہت متاثر کیا، اس کے علاوہ کلب میں کھیلنے والے اعجاز پنہنور،رفیق لنڈ،ضفیر لغالی بھی ان کی متاثر کردہ شخصیات کی فہرست میں شامل ہیں۔ 
شام کے وقت پی سی بی گراؤنڈ میں روزانہ کی بنیاد پر اپنی پریکٹس جاری رکھتے ہوئے معصومانہ چہرے کے ساتھ پروقار،باصلاحیت شخصیت کے حامل زاہد مہمود نے بتایا کہ وہ بنیادی طور پر بیٹسمیں بننا چاہتے تھے لیکں ان کے جوہرشناس اور عقابی نظر رکھنے والے سینئرز نے ان کی انوکھیے اور منفردباؤلیگ انداز کو پرکھتے ہوئے انہیں باؤلنگ پر توجہ دینے کی تجویز دی جہ کہ آگے چل کر کارآمد ثابت ہوئی۔ سفر جاری رکھتے ہوئے زاہد مہمود نے انڈر 19 کرکٹ میچز اپنے خرچے پر دادو کی نمائندگی کرنے ضلع کوٹڑی میں کھیلنے جانا پڑتا تھا۔ اپنے کرکٹ کے جذبے کو آگے لے جانے کے لئے وہ کوٹڑی میں اپنے ماموں کے گھر رہائش پذیر ہوا کرتا تھا۔ اس کے فوری بعد جب وہ حیدرآباد ریجن میں منتخب ہوئے تو شدید بیمار ہونے کی وجہ سے اسے واپس آنا پڑا جہ کہ اس بیماری سے  زیادہ تکلیفدہ  بات دادو کے لوگوں کی طعنہ اور طنز بھری باتیں تھیں لیکن انہوں نے ہمت نہیں ہاری بلکہ دل میں طۂ کر لیا کہ کچھ بھی ہوجائے انہیں اچھی کرکٹ کھیل کر لوگوں کے منہ بند کرنے ہیں۔  
یہ بات یہاں پر واضع کرتے چلیں کہ ان دنوں ریجنل لیول پر کرکٹ کھیلنے کے لئے کسی قسم کی مناسب سہولیات میسر نیہں تھی اور نہ ہی کوئیباقائدا کوچنگ دی جاتی تھی، اس کے باوجود زاہد مہمود نے ہمت اور لگن سے اپنی منزل حاصل کر کے دادو شہر میں فخر دادو کا خطاب حاصل کیا۔ اس دور میں فرسٹ کلاس میں کرکٹ کھیلنا کسی چھوٹے ریجن کے لئے ناممکن سی بات تھی،جو کہ صرف پیرمعظم کے بیٹے پیر ذولفقار اور شاہد قمرانی جیسے اسر اسوخ رکھنے والوں کی قسمت میں دیکھی جاتی تھی۔ لیکن رواجی پڑھائی سے بیزار ہوکے زاہد نے کرکٹ کو ہی اپنا اولین مقصد بنا دیا۔ میٹرک کے بعد جب سینئر ڈسرکٹ لیول پر زاہد مہمود نے اپنی بہترین باؤلنگ کے جوہر دکھاتے ہوئے پانچ میچز میں 36کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا تب بد قسمتی سے ان کا نام لسٹ میں نہ آسکا لیکن جب ضلع دادو کو پلینگ رائیٹس ملے تب انہوں نے  پانچ میچز میں 52کھلاڑیوں کو آؤٹ کر کے پاکستان میں ایک نیا رکارڈ قائم کیا جو کہ ان کا ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوا کیونکہ یہ کامیابی  زاہد کوریجنل ٹیم انڈر23میں شمولیت کی وجہ بنی۔ اس کے یہ ریجنل کرکٹ کا سلسلا جاری  ہوتے زاہد کی  فرسٹ کلاس میں کھیلنے کے قسمت کے دروازے کھل گئے۔
ٹی ٹونٹی 2012ء کے سفر کا حوالہ دیتے ہوئے زاہد مہمود نے بتایا کہ وہ تجربہ ان کی زندگی کا بہترین تجربہ رہا، بعد ازاں سن2014ء میں لاڑکانہ کے نئے بننے والے ریجن کی نمائندگی کرتے ہوئے لگاتار دو سال تک بحیثیت کپتان اپنی کارکردگی کے جوہر دکھائے۔ اگرچہ پاکستان کپ میں زاہد کی شمولیت نہ ہو سکی تاہم لارکانہ اور حیدرآباد ریجن کے گریڈ ٹو میں جانے کے بعددو سال کے لئے اسٹیٹ بنک کی طرف سے قائداعظم ٹرافی کھیلنے کا ایک اوراچھا موقعا ملا۔سن2018ء میں پشاور ریجن میں بطور مہمان کھلاڑی کھیلے۔حالیہ وزیراعظم عمران خان کی سرپرستی میں سن 2019ء کو تشکیل دیئے جانے والے ساؤتھ پنجاب ٹیم جو چھ ٹیمز پر مشتمل ہے، زاہد مہمود کو کھیلنے کا موقع ملا۔ محنت اور نصیب پر پختہ یقین رکھنے والے زاہد مہمود کو  پی ایس ایل کی طرف سے کوئٹہ گلیڈیئٹر کی ٹیم میں کھیلنے کا موقع ملا جس کی وجہ سے انہوں نے شہرت کی وہ بلندیاں چھوئیں جس کی ہر خاص و عام صرف خواہش ہی کر سکتا ہے لیکن قسمت کی دیوی سب پر مہربان کہاں ہوتی ہے یہ تو زاہد مہمود جیسے ان تھک محنت کرنے والوں کے ہی قدم چومتی ہے۔ 
زندگی کے اتار چڑھاؤ اور نشیب و فراز میں ناکامیوں سے لڑتے معجزانہ طور پر کامیابی حاصل کرنے والے زاہد نے کرکٹ فیلڈ کے خواہشمند نوجوانوں کو پیغام دیتے ہوئے کہا کہ اس فیلڈ میں فٹنس کا بہت ذیادہ خیال رکھنا بہت ضروری ہے اور اس فیلڈ میں صبر لازمی ہے کیونکہ کوئی بھی کامیابی محنت،صبر اور رب پر بھروسہ کے نہیں ملتی۔اگر آپ کے اندر ٹیلینٹ موجود ہے تو دنیا کی کوئی بھی طاقت منزل پانے سے نہیں روک سکتی۔بغیر ٹیلینٹ اور محنت کے آسان سی چیز بھی نہیں ملتی جس طرح علامہ اقبال نے کیا خوب کہا ہے  ، بھٹک رہا ہے راہی کیوں منزل کی تلاش میں، اتنا عظیم ہو جا منزل تجھے پکارے۔ بہت کم عرصے میں سب کے دلدادہ بننے والے زاہد مہمود روازانہ گراؤنڈ میں پریکٹس اور جمنازیم میں دیگر فٹنس کی کثرت
 کرتے ہوئے شام کے ٹائم ملیں گے گویا یہ وقت ان کے کیرئرمیں آگے جانے کی ایک سیڑھی کی طرح کام کرتا ہو۔زاہد مہمود کا مزید کہنا تھا کہ آجکل کرکٹ میں شمولیت 70%فٹنس پر منحصر کرتی ہے۔
کرکٹ کے علاوہ تفریح کے لئے کبھی کبھار زاہد مہمود فلمیں دیکھنے کے لئے بھی وقت نکال لیتے ہیں۔ سلمان خان کے مداح ہونے کی وجہ سے ان کی پسندیدہ فلم دبنگ ہے جو بار بار دیکھنے سے بھی ان کا دل نہیں بھرتا۔ کھانے میں مٹن کو اپنی مرغوب غذا بتاتے ہوئے زاہد نے کہا ک ان کی احلیہ مٹن بہت عمدہ بناتی ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں زاہد نے بتایا کہ وہ مشہور کرکٹرز عمران طاہر اور راشد خان کی طرح اپنا ایک منفرد نام پیدا کرنا چاہتے ہیں۔کیریر کے یادگار لمحات کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ جب لاڑکانہ ریجن میں کھیلتے ہوئے 16رنز میں 5آؤٹ کیئے اور ساؤتھ پنجاب کی ٹیم میں 21رنز میں 4آؤٹ کیئے تو ان کی خوشی کا کوئی تھکانہ نہ رہا اور وہ لمحات آج ان کے ذہن کو کرکٹ کے میدان میں آگے بڑھنے میں حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔
معاشی صورتحال کے حوالے سے زاہد نے بتایا کہ جیسے کوئی ڈاکٹر انجنیئر اور دوسرے شعبہ کے لئے سب سے پہلے محنت اور ایک طریقہ کار سے گذرنا لازمی ہے بلکل ویسے ہی کرکٹ کے میدان میں بھی ایسے ہی عمل سے گزنا پڑتا ہے تب جاکے اپنی مستحکم پوزیشن حاصل کی جاسکتی ہے۔

Sunday, March 15, 2020

Aisha Aslam Feature - Urdu MMC 9

Ur topic Latifabad was approved with this note and outline 
لطیف آباد کس طرح سے حیدرآباد شہر سے مختلف ہے؟ یا لطیف آباد اور پرانے شہر میں فرق کیا ہے؟
رہن سہن،  تعلیم، کھاناپینا، کاروبار وغیرہ۔
تھوڑا سا یہ بھی ذکر کہ لطیف آباد کسی اور کب آباد ہوا۔ اس میں بڑی بڑی تبدیلیاں کب آئیں؟
اس کو رپورٹنگ بیسڈ ہونا چاہئے۔ جن جن سے بات کرو اس کا دو تین الفاظ میں تعارف ہونا چاہئے۔ بات چیت کے دوران دلچسپ جملے نوٹ کرو اور انہی کو بیان کرو۔
فیچر دراصل معلومات کا غیر رسمی طریقے سے بیان کرنا ہوتا ہے۔ اس کا بنیادی کام تفریح مہیا کرنا ہوتا ہے۔ لہٰذا معلومات کو دلچسپ انداز میں لکھنا ہوگا۔ 

Outline and instructions are not followed.
Make reporting based, with interesting and informative comments from related people (those those people and their status) 
Write in interesting manner as some samples on group are available for reference.
Do not write "Ab hum baat krty hn" etc 
File name is wrong and is sent in inpage's template format. We have to take extra effort and convert it.  Do not send in BO1 format, but only in inpage.
Some fotos will also required. Mind it not to insert foto in text file 
Observe proper paragraphing
Referred back, follow instructions. can file till March 19


فیچر ٹوپک
 لطیف آباد میں مختلف خوبیاں اور اچھے اثرات
عائشہ محمد اسلم 
رول نمبر : 2K20/MMC/9
لطیف آباد پہلے ایک جنگل اور پہاڑی علاقہ تھا جہاں لوگ مٹی والے گھر بناکے رہا کرتے تھے۔ جس کی چھتیں، چٹائی پر ریت کی ہوا کرتی تھیں۔ اور یہ گھر ٹھنڈے ہوا کرتے تھے اور کچھ لوگ پہاڑی علاقوں پر پتھروں کے گھر بناکر رہا کرتے تھے لطیف آباد اپنے پہاڑی علاقوں کی وجہ سے مشہور ہوا۔ سب سے پہلے اس پہاڑی علاقے پے ایک شخص آکے رہا جس کا نام " شاہ عبدالطیف بھٹائی "تھا "شاہ عبدالطیف بھٹائی"کی وجہ سے اس جگہ کی پہچان بنی۔ اور اس جگہ کو انہیں لطیف کے نام پر لطیف آباد نام رکھا گیا "شاہ عبدالطیف بھٹائی "کی وجہ سے دنیا میں حیدرآباد شہر میں لطیف آباد کو اپنی حیثیت و مقام اور پہچان حاصل ہوئی۔ 
Following para is irrelevant
حیدرآباد شہر میں لطیف آباد مشہور ہونے کے کچھ مقامات یہ ہیں "کچا قلعہ، پکا قلعہ، ٹھنڈی سڑک، رانی باغ کی عید گاہ، عبدالوہاب صاحب کا مزار، ریڈیو پاکستان، پریس کلب اور ایشیاء کا سب سے بڑا بازار " یہ سب مشہور مقامات موجود ہیں جس کی وجہ سے لطیف آباد بہت مشہور ہے "اب ہم بات کرتے ہیں "کچے قلعے اور پکے قلعے سے جنگ کے دوران ہم نے یہاں سے اپنا دفع کیا ٹھنڈی سڑک اور بھی اس لیئے زیادہ مشہور ہے کہ یہ ٹھنڈی سڑک کا علاقہ اور یہاں کے گھر بہت ٹھنڈے اور پرسکون رہتے ہیں۔ رانی باغ بچوں، بڑوں کیلئے ایک اچھی تفریح گاہ ہے اور یہاں چڑیا گھر، بچوں کیلئے پلے گراؤنڈموجود ہے۔ رانی باغ کی عیدگاہ یہ اس لیئے مشہور ہے کہ اس عیدگاہ پے سالوں سال کی عید الفطر اور عید الحضیٰ کی نماز کی جاتی ہے عبدالوہاب صاحب جیلانی رحمتہ اللہ علیہ ان کا ایک اپنا مقام ہے۔ انہی کے مزار سے دنیا بھر کے لوگ شفاء و صحتیابی اور فیض حاصل کرتے ہیں "اب بات کی جائے ریڈیو پاکستان اور پریس کلب " کی تو لطیف آباد شہر میں بہت بڑے اور اچھے ماحول کا ریڈیو اسٹیشن موجود ہے جہاں سے دنیا بھر کی خبروں سے باخبر کیا جاتا ہے۔ اور حیدرآباد شہر میں بڑے بڑے فنکار فلم انڈسٹری کو دیئے ہیں۔ "فنکار کے نام" محمد علی، مصطفی قریشی، شاہ نوازوغیرہ وغیرہ۔ حیدرآباد شہر میں مشہور پریس کلب موجود ہے جہاں پے لوگوں کے ہر نوٹس کا احتجاج کیا جاتا ہے "اب ہم بات کریں " 
 لطیف آباد میں اچھے بڑے بہت پرسکون ماحول کے بازار موجود ہیں۔ اسی بازار میں دنیا بھر کے لوگ بڑے بڑے بازار چھوڑ کر لطیف آباد کے بازاروں میں تشریف لاتے ہیں۔
 (اب ہم بتاتے ہیں کہ لطیف آباد اور دوسرے شہروں سے کیوں مختلف ہے)لطیف آباد شہر میں ایسا بہت کچھ موجود ہے جو کہ اور دوسرے شہروں میں موجود نہیں۔ یہاں پر ہر چیز کی سہولت موجود ہے۔ (مثلاً)ٹرانسپورٹ، تعلیمی ادارے، کھانے پینے، کاروبار ہر کلچر کے رہن سہن اور اچھے بڑے صاف ستھرے گھر، سلجھے ہوئے پڑھے لکھے لوگ موجود ہیں۔ جس کی وجہ سے اور دوسرے شہروں سے ہمارا لطیف آباد شہر بہت مختلف کہلاتا ہے۔ ہمارے اس لطیف آباد شہر کراچی جیسے اور دیگر شہروں سے زیادہ خوشگوار اور نمی والی ہوائیں پائی جاتی ہیں لطیف آباد شہر میں 4قسم کے موسم ہوتے ہیں۔ موسم یہ ہیں "سردی، گرمی، خزا، بہار"یہ سب موسموں میں شامل ہیں۔ "اب ہم بات کرتے ہیں "لطیف آباد کے ماحول کی لطیف آباد کی گلی گلی علاقے، سڑکیں اور چلنے پھرنے والے راستے بہت بہت پرسکون اور کشادہ ہیں لطیف آباد شہر کے ماحول میں یہاں کسی قسم کی کہیں بھی کوئی افراء تفریحی نہیں۔ یہاں کی آب و ہوا کی بات کریں تو یہاں کی آب و ہوا اور ماحول بہت ہی خوشگوار ہوتے ہیں جس کی وجہ سے یہاں کے رہائشی لوگوں کو کسی قسم کی مشکلات یا کوئی تکلیف پیش نہیں آتی لطیف آباد شہر کی اپنی پہچان کچھ یہ بھی ہے کہ لطیف آباد شہر میں کچاقلعہ، پکا قلعہ یہ تاریخ کا حصہ رہا ہے۔" اب اگر ہم بات کریں "لطیف آباد کے تعلیمی اداروں کی لطیف آباد میں یہاں تعلیمی نظام بہت آلہ ہے یہاں کے کے تعلیمی اداروں کے پرنسپل، انچارج،  ہیڈ ماسٹر، پیون بہت ہی اچھے اور حسن سلوک سے پیش آتے ہیں کہ چھوٹے چھوٹے ننے منے بچے اور بڑوں کی اچھی اور درست رہنمائی کرتے ہیں لطیف آباد میں گورنمنٹ اسکولز، کالجز، یونیورسٹیزہونے کے اچھے اثرات یہ ہیں کہ لطیف آباد میں کچھ لوگ ایسے بے بس مجبور لاچار اور پریشان حال ہیں جوکہ تعلیمی اداروں کی فیس اور دیگر اخراجات برداشت نہیں کرسکتے تو اسی کے سبب گورنمنٹ تعلیمی ادارے ہونے سے یہ لوگ وہاں آکے اچھی اعلیٰ تعلیم حاصل کرتے ہیں تعلیم مکمل ہونے کے بعد اچھی نوکری یا اچھا کاروبار کرتے ہیں یہ خود پریشان اور تنگدستی کا سامنا کرکے یہاں تک آئے یہاں ہمارے گورنمنٹ تعلیمی ادارے سے تعلیم حاصل کرکے یہ اپنے گھروں کو سپورٹ کرتے ہیں اور اپنے گھروں کو چلاتے ہیں۔ اور اسی تکلیف، پریشانی، تنگدستی سے باہر نکلتے ہیں اسی کے ساتھ یہ اپنی زندگی ہنسی خوشی گزر بسر کرتے ہیں "اب ہم بات کرتے ہیں " لطیف آباد کے بازاروں اور شاپنگ مالز کی لطیف آباد شہر میں یہاں کے بازار ہر لحاظ سے اور ان بازاروں میں ہر چیز پہننے اوڑھنے، سجنے سنورنے اور یہاں کی خواتین کے ہار سنگھار اور گھر کی دیگر اشیاء بہت اچھی کم پیسوں میں موجود ہوتی ہیں۔ یہ کچھ شاپنگ مالز کا ذکر کریں شاپنگ مالز کے ماحول اور یہاں کی افراء تفریح پے نظر ثانی کریں تو لطیف آباد کے سب ہی مالز کا ہر لحاظ سے ماحول اچھا، پرسکون اور خوشگوار والا ہے۔ میں لطیف آباد کے بہت اچھے اور بڑے بالی ورڈ مال کے اندر کی کہانی بتاؤں تو کچھ یہ ہے کہ بالی ورڈ ماحول بہت صاف و شفاف ہے اور وہاں کوڑا کرکٹ گندگی کا کوئی نام ونشان نہیں۔ یہاں بالی ورڈ مال کے باہر پارکنگ نظام بہت اچھاہے۔ سیکورٹی نظام ہر بات کا خیال رکھنے کیلئے اپنی اپنی حفاظت کیلئے سیکورٹی نظام بہت زبردست ہے۔ اگر آپ کسی آؤٹ لیٹ پر جاتے ہیں تو وہاں کے ڈیلر اور کیشیئر بہت اچھے سے آپ کو پروٹوکول دیتے ہیں۔ وہاں کے ریسیپشننسٹ آپ کا بہت اچھے سے ویلکم کرتے ہیں وہاں جاکے آپ کو اپنے بچوں کیلئے کوئی پریشان نہیں ہونا پڑتا۔ آپ آرام سے خریدو فروخت کرکے وہاں اپنی فیملی کے ساتھ انجوائے کرسکتے اور ساتھ میں فیملی کے کچھ کھاپی سکتے ایسے میں آپ کی خریدی بہت اچھی اور انجوائے منٹ کے ساتھ آرام سے کسی قسم کی فکر کے بغیر ہوتی ہے۔ یہاں بالی ورڈ مال میں ایک ساتھ ہی آپ کو ہر چیز میسر ہوتی ہے۔ "بات کرتے ہیں اب ہم کھیل کے میدان کی "حیدرآباد شہر کے لطیف آباد میں اچھے بڑے صاف ستھرے پرسکون والے ماحول کے دو کھیل کے میدان موجود ہیں -1ایک افضال گراؤنڈ، -2 دوسرا باغ مصطفی گراؤنڈ ان دونوں گراؤنڈوں میں لوگ الگ الگ ایریئے سے سیرو تفریح اور چھوٹے بڑے سب ہی اپنی چھٹی والے دن گھروں سے نکل کے ان کھیلوں کے میدان میں آتے ہیں۔ اپنے الگ الگ کھیلوں کے رنگ بکھیر تے ہیں جس سے وہ خوب لطف اندوز ہوتے ہیں۔ انہی گراؤنڈز میں کافی اچھی بڑی تعداد میں لوگ ورزش کیلئے بھی آتے ہیں ورزش کرکے لوگ اپنے آپ کو سکون اور ٹینشن فری محسوس کرتے ہیں یہاں آکے لوگ ترو تازہ ہوا لے کے اس کھلی فضاء میں بہت اچھا محسوس کرتے ہیں۔ ان سب خوبیوں کی وجہ سے "ہمارا پیارا لطیف آباد "اور دوسرے شہروں سے بہت مختلف اچھے ماحول اور پرسکون والا ہے۔  

Thursday, March 12, 2020

Sarfaraz Noor- Feature- Urdu MA 50

Not reporting based 
Avoid English words 

Feature-Sarfaraz Noor-MA- Roll 50-Urdu
سینڈس پٹ ساحل کراچی
سرفراز نور
شہر کراچی کو پاکستان کے دوسرے شہروں سے منفرداور لاثانی بنانے میں ساحل سمندر کا کردار سب سے زیادہ نمایاں رہا ہے۔جہاں یہ شہر جدید طرز زندگی اور بڑی بڑی صنعتوں کے قیام سے آلودہ اور غیر شفاف ہو چکا ہے،وہاں کراچی کے ساحل سمندر کچھ دیر کے لئے ہی سہی لوگوں کو پر فضا، شفاف اور متین ہوا میں سانس لینے کا موقع فراہم کرتاہے۔ یوں تو کراچی ساحل سمندر کی خوبصورتی سے مالامال ہے جن میں ہاکس بے، فرینچ بیچ، کلفٹن بیچ کے نام قابل ذکر ہیں لیکن شہر سے لگ بھگ25  کلومیٹرکی مسافت پر واقع سینڈس پٹ بعچ اپنے صاف شفاف نیلے رنگ کے غیر آلودہ پانی، کرکری ریت، پر فضا حلیم اور متانت سے بھر پور ماحول کی وجہ سے، دور دراز سے آنے ولے سیاحوں کو اپنے حسن و جمال کے باعث موہت کرنے میں سبقت لے چکا ہے۔
پاکستان کے جنوب مغرب میں واقع مشہور سیاحتی مقام سینڈس پٹ بیچ کے لئے جب آپ کراچی کے مختلف راستوں سے گزرتے ہوئے ماڑی پورپہنچتے ہیں تو وہاں سے سینڈس پٹ کی حدود شروع ہوتی ہیں، جہاں سے صرف 3  سے 4 کلومیٹر کی مختصر سی دوری پر ایک تخیلاتی اور پرفتن بحری سیاح گاہ آپ کی منتظر ہوگی۔بے ترتیب اور پر شور زندگی سے تنگ لوگ جب سینڈس پٹ کی ٹھنڈی ریت پر پاؤں رکھتے اور سمندری ہواؤں کو اپنی سانسوں میں بھرتے ہیں تو ازسرنو اپنی رکی ہوئی زندگی کو متحرک پاتے ہیں۔سینڈس پٹ کا شہری سیویریج اوردھویں کی آلودگی سے پاک  صاف شفا ف اتھرا ہوا پانی تیراکی اور غسل سورج "Sun bathing" کے لئے بہترین ہے۔علاقے کی غیر معمولی پتھریلی اور ریتی زمین پر گھوڑوں اور اونٹوں کی سواریاں، لوگوں کے لئے تفریح اور ماہگیروں کے لئے ذریعہ معاش کے بہترین اسباب ہیں۔
سینڈس پٹ کا نام دراصل سردیوں کے موسم میں ریت پر بننے والے ان گڑھون کی وجہ سے رکھا گیا ہے جہاں کچھوے اپنے انڈے دیتے ہیں،جو کہ ریت پر باآسانی دیکھے جاسکتے ہیں۔ہرے کچھوے کی معدوم اقسام کو محفوظ کرنے کے غرض سے اور جنگلی حیات "Wildlife" کا شعور اجاگر کرنے کے لئے WWF ورلڈ وائلڈ لائف فنڈکی طرف سے بیچ پر ویٹ لینڈ سینٹر قائم کئے گئے ہیں، تاکہ سمندری جیو جیسے کچھوے، کیکڑے اور طحالب "Sacchrum Spontneum Plant" کو محفوظ کیا جاسکے۔
اکتوبر سے مارچ تک سینڈس پٹ بہت ہی پر سکون ہوتا ہے اور یہاں ان دنوں میں لوگ شاذونادر ہی بیچ پر نظر آئینگے ماسوائے ماہیگیروں اور دوسرے صوبوں یا دوردراز کے علاقون سے آئے ہوئے لوگ، تاہم مارچ کے بعد اور مون سون کے موسم میں سمندر کاجوش دیکھنے لائق ہوتا ہے۔
سینڈس پٹ آنے والے لوگ اپنے لئے کُٹیا "Hut/Cottage" پہلے سے ہی بُک کروالیتے ہیں،بہرحال کچھ لوگ عین وقت پر ہی کُٹیا بُک کرنے کو ترجیع دیتے ہیں،بقول ان کے، ہٹ کی پری بکنگ پر زیادہ پیسوں کی بے وجہ لاگت آتی ہے۔کُٹیا کے نرخ موسم سرما میں کم  جبکہ گرمی اور مون سُون کے دنوں میں یہ قیمتیں آسمان کو چھوتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔سینڈس پٹ میں دیئے جانے والے Huts صرف فیملیزاور کارپوریٹ پروگرام کے لئے مخصوص ہیں جن میں روزمرہ کی ضروریات زندگی کی ہر چیز میسر ملتی ہے، گھومنے آئے ہوئے لوگ کھانا اور چائے وغیرہ بناتے ہوئے گھر جیسے ماحول میں بیٹھ کر فطرت کی قربت سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔علاوہ ازیں ضرورت پڑنے پر آرڈر پر مختلف طعام جن میں بار بی کیو اور دیگر روایتی کھانے بھی تیار کئے جاتے ہیں۔ٹھنڈی ٹھنڈی پُر عزم ہواؤں کے مسحورکن شور میں لوگ اپنے ہٹ میں بیٹھ کر لوگ جب اپنا کھانا تناول کرتے ہیں تو سمندر کی موجیں بھی ان کے ساتھ خوشی سے جھومتی محسوس ہوتی ہیں۔سینڈس پٹ کے Huts اپنے دوستوں یا کنبہ کے ساتھ پکنک، شادی یا پارٹی کے لمحات سے لطف لیتے ہوئے ساحل سمندر کے پوشیدہ خزانووں کو دریافت کرنے کے بہترین مواقع فراہم کرتے ہیں۔دن بھر نہاتے، ساحل پر ریت کے محل بناتے، سیپیاں جمع کرتے، دوست احباب کے ساتھ قہقہے لگاتے، موجوں کے پر جوش شور میں خاموشی سے ناتہ توڑتے ہوئے یہاں آنے والے اپنے اندر ان گنت یادیں سمیٹ کر جاتے ہیں۔
شام کی چائے پیتے ہوئے Huts کے وسیع ٹیرس سے غروب آفتاب کا دلفریب نظارہ بھی قابل دید ہوتاہے، ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے فلک پر گہرے سرخ رنگ کی چادر اوڑھے کوئی آسمانی پری، شفق کے دیدہ زیب رنگوں میں پر پھیلائے، آنے والی اندھیری رات کا اشارہ دیتے ہوئے، پورا دن ساتھ گزارنے والے سیاحوں کو خیرباد کہہ رہی ہو۔زندگی کا سفر بھی سمندر جیسا ہوتا ہے جہاں ہر لمحے ایک کے بعد دوسری لہرآتی ہے لیکن زندگی کا کاروان لہروں کے آنے جانے سے رکتا نہیں۔ 

Qirat Shakeel Urdu Feature 42 Referred back

بلندی سے کیا مطلب ہے؟ 
منظر کشی نہیں، اس کے  بغیر یہ فیچر نہیں آرٹیکل لگتا ہے۔
سیر کو آنے والے لوگوں کی تعداد کس ذریعے نے بتائی؟
کہیں سے چیک کیا ہے کہ  یہ جھیل وائلڈ لائف سینکچوری کا درجہ رکھتی ہے؟    ماہی گیری کا کام نسل پرستی۔۔ یہ غلط ہے۔
محکمہ ثقافت وسیاحت سندھ کی جانب سے  سیاحوں کے لئے ہٹ بھی ہیں۔ اس کا ذکر کریں 
صفائی کا درست انتظام نہیں۔
آخری پیراگراف میں  نامعلوم ذریعہ دیا گیا ہے۔ یہ نام اور پورے تعارف کے ساتھ ہونا چاہئے۔ 
رپورٹنگ بیسڈ نہیں۔ مشاہد بھی بیان نہیں کیا گیا۔
کینجھر کو انگریزوں نے مزید ڈولپ کیا تھا تاکہ کراچی میں موجود اپنی فوجی چھانونی کو پانی پہنچایا جاسکے۔ 
فوٹوز بھی چاہئیں ہونگے۔
اچھی کوشش ہے لیکن کچھ چیزیں رہ گئی ہیں۔
File name is wrong. it should be: Qirat Feature MMC-42 Urdu
Referred back
Also write ur name, roll no etc in English in text file
فیچر  تحریر  قرأت محمد شکیل 
رول نمبر:2K20/MMC/42(ایم اے پریویس)

کینجھر جھیل

اس دنیا کے مصور نے انسان کو اس دنیا میں بھیجنے سے پہلے اس سانس لینے کے قابل بنانے کے لیے ایک خوبصورت اور ایک پر آسائش گھر بنایا۔اوپر والے نے اس دنیا میں خوبصورت جھیلوں کا بھی نظام بنایا جو انسان اور دوسرے سانس لینے والوں کے لیے قدرت کا انمول تحفہ ہے۔ اسی طرح کینجھر جھیل پاکستان کی خوبصورت جھیل بھی سندھ کے اور دوسرے سیاحوں کے لیے ایک اہم تحفہ ہے۔ 
کینجھر جھیل اولڈ نیشنل ہائی وے پر ضلع ٹھٹھہ میں واقع ہے یہ ایک پرانی اور تاریخی جھیل ہے جو پاکستان میں میٹھے پانی کی دوسری بڑی جھیل ہے۔ یہ جھیل کراچی اور ٹھٹھہ ضلع کے لیے پانی کا ذریعہ بھی ہے۔ کینجھر جھیل ٹھٹھہ سے تقریباً 18کلو میٹر کی دوری پر ہے۔ جو کہ کرلی جھیل کے نام سے بھی جانی جاتی ہے۔ کینجھر جھیل کی بلندی  25کلو میٹر یعنی 49فٹ ہے۔ اس جھیل کی لمبائی 24کلو میٹر اور چوڑائی6کلو میٹر ہے۔ یہ ایک بڑی تازہ پانی کی جھیل ہے اور اسی وجہ سے سیاحوں میں کافی مقبول ہے۔ یہ جھیل سندھ کے مشہور صوفی شاعر شاہ عبداللطیف بھٹائی کے کلام نوری کی وجہ سے بھی بہت سے ممالک میں جانی جاتی ہے۔ 

کینجھر جھیل ایک مشہور سیاحی مقام ہے اس جھیل پر نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر سے بھی لوگ اپنے گھر والوں کے ساتھ چھٹیاں منانے کے لیے جھیل کا رخ کرتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق کینجھر جھیل پر ایک ہفتے میں 17000لوگ سیر کرنے آتے ہیں۔ تیراکی، مچھلی کے شکار اور بوٹنگ سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ کینجھر جھیل میں موٹر پر چلنے والی چھوٹی کشتیاں ہی سیاحوں واحد تفریح ہے۔ لوگ صرف تفریح کرنے کے لیے نہیں بلکہ جھیل کے بیچوں بیچ بنا نوری جام تماچی کے مزار پر حاضری پیش کرتے ہیں اور جھیل پر رات گزارنے کے لیے مختلف رہائش گاہ اور کھانے پینے کے لیے ہوٹل بھی موجود ہیں مگر سیاحت کے لیے وافر سہولیات نظر نہیں آتیں۔
اس کے علاوہ محکمہ جنگلی حیات سندھ کے قوانین کے تحت کینجھر جھیل کو جنگلی حیات کی مکمل پناہ گاہ یعنی وائلڈ لائف سینکچوری کا درجہ بھی حاصل ہے۔ سنکچوری قرار دینے کے بعد کوئی فرد آب گاہ کے گرد رہائش اختیار نہیں کرسکتا جبکہ گھاس پھوس اور پودوں کو نقصان پہنچانا جھیل سے تین میل تک فائر کرنا اور پانی کو گندہ کرنا قانوناً جرم سمجھا جاتا ہے۔ یہاں پر بیشتر پرندے اڑ کر آتے ہیں خاص طور پر وہ پرندے جو ملک میں ٹھنڈ کے باعث زندہ نہیں رہ پاتے۔ خاص طور پر بسرا کے وہ جانور پرندے ہزاروں میل کا سفر کرکے اس جھیل کو اپنا بسیرا بناتے ہیں۔ مگر بد قسمتی سے یہ جھیل اس وقت سخت ماحولیاتی مسائل کا شکار ہے۔ 

جھیل کے قرب و جوار میں رہنے والے ہزاروں مچھیروں کے روزگار کا واحد ذریعہ کینجھر جھیل ہے۔ جو مچھلیاں پکڑ کر روزگار کماتے ہیں۔ اس کے علاوہ جھیل میں اگنے والے سرکنڈوں کو کاٹ کر اس کی چٹائی اور جھونپڑیوں کی چھتیں بنانے والے ہزاروں خاندانوں کی روزی روٹی کا زریعہ بھی کینجھر جھیل ہی ہے۔ مزید اس کے بارے میں جاننے کے لیے وہیں کے رہنے والے ایک مچھیرے سے گفتگو کا سلسلہ جب شروع کیا تو اس کے خیالات کچھ اس طرح کے تھے۔ 

کینجھر جھیل کے ارد گرد کے علاقوں کی تقریباً آبادی ایک لاکھ کے قریب ہے۔ کینجھر جھیل پر ہمارا کام روایتی ماہی گیری برادری ہے ہم یہاں اپنے خاندان کے ساتھ رہتے ہیں۔ ماہی گیری کا کام نسل پرستی سے طویل عرصے سے ہمارا خاندانی کام ہے۔ 

کینجھر جھیل پر مچھلیاں پکڑنے والے سردار کینجھر کے نام سے جانے جاتے ہیں جس کو جام تماچی کو بطور انعام پیش کی تھی اس کے بعد صوفی شاعر کی جگہ بن گئی جس پر شاہ عبداللطیف بھٹائی نے بھی کلام لکھے۔ جام تماچی نے اس جھیل پر ایک بڑی بندرگاہ بنائی تھی جہاں پر وہ آرام کرنے کے ساتھ ساتھ جھیل کا نظارہ بھی کرتا تھا۔ وہاں اپنے آنے جانے والے مسافروں اور ان کی کشتیاں دیکھ کر لطف اندوز ہوتا تھا۔ جھیل کے قریب ایک گھر میں رہنے والی مچھیرے کی بیٹی نوری نے جب اپنا نقاب ہٹایا تو اس کی خوبصورتی کا دیوانہ ہوگیا اور کینجھر کے ذریعے نوری کے گھر رشتے کا پیغام پہنچایا اور نوری سے شادی کرکے اس جھیل کانام کینجھر رکھ دیا۔ جس کے بعد یہ جھیل کینجھر کے نام سے مشہور ہوگئی۔ شاہ عبداللطیف بھٹائی نے بھی اپنی کتاب شاہ جو رسالو میں بھی کینجھر جھیل اور اس داستانِ محبت کا اظہار کیا ہے۔ جھیل کے ساحلی علاقوں میں کوئی بھی ذرائع آمدو رفت کا ذریعہ نہیں۔ جام تماچی کے مزار پر اور دوسرے چھوٹے شہروں تک رسائی صرف کشتیوں کی ذریعے ہی ممکن ہے۔ آٹھ سے دس افراد کے لیے موٹر بوٹ تقریباً 500سے2000روپے کرائے پر دستیاب ہوتی ہے۔ جب کہ رہنے کے لیے محکمہ سیاحت کی جانب سے کینجھر جھیل ریزورٹ بنایا گیا ہے۔ جبکہ پاکستان آرمی کا ڈیزرٹ ریزارٹ ہاک بھی رہائش کے لیے میسر ہے۔ 
اور اب دیکھا جائے تو یہ جھیل حکومت کی عدم توجہ کی وجہ سے لاوارث ہے۔ سیر و تفریح کی غرض سے آنے والے لوگوں سے جب میں نے کینجھر کی سہولیات کے بارے میں پوچھا تو ان کے اظہارِ خیال کچھ یوں تھے۔ "یہاں کوئی سہولت میسر نہیں ہمارے لیے اور نہ ہی ہمیں لائف جیکٹس دی جاری ہیں لوگ ایسے ہی پانی میں جارہے ہیں جو کہ انتہائی خطرناک ہے۔ یہاں ٹورسٹ کے لیے کوئی انتظامات نہیں۔ ابھی حال ہی میں نوری کے مزار پر جاتے ہوئے کینجھر میں ایک خاندان کی دو بہنوں سمیت تین عورتیں ڈوب کر جاں بحق ہوگئیں۔ کینجھر جھیل نیلے صاف میٹھے پانی والی جھیل جو کہ کراچی اور ٹھٹھہ کو میٹھا پانی فراہم کرنے کا ذریعہ ہے جو کہ آہستہ آہستہ منچھر جھیل کی طرح زہریلے پانی کی جھیل کی طرف جاتی نظر آرہی ہے۔ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ فیکٹریوں کا گندہ اور زہریلا پانی کینجھر میں چھوڑ کر زہریلی کی جارہی ہے۔ جس کے خلاف مقامی لوگ اور مچھوارے جن کا گزر جھیل پر ہے وہ سڑکوں پر نکل آئے تھے لیکن حکومت نے کوئی نوٹس نہیں لیا۔ 

Monday, March 9, 2020

Qirat M.Shakeel-Article-Urdu - MA-42 Late

Late
یہاں پر مصنفہ کا نام رول نمبر کلاس، اور کون سی صنف ہے یہ اردو اور انگلش دونوں میں لکھنا چاہئے۔
فائیل کا نام غلط ہے۔ 
آئندہ اس بات کا خیال رکھیں 
املا کی بہت ساری غلطیاں ہیں۔
یہ ذہن میں رکھیں کہ یہ تحریریں اخبار یا میگزین میں شایع ہونی ہیں، کس پر مارکس بھی ہیں۔
آرٹیکل میں اعداد وشمار اور کوئی مستند حولاے لازمی ہیں۔ صرف اپنے خیالات نہیں چلتے۔
آرٹیکل سے لگے کہ یہ کون سے سال میں لکھا گیا ہے اس کے لئے اس سال کے تازہ ترین چیز کا حوالہ لازمی ہے۔

انٹر نیٹ کے اثرا ت 

جیسے جیسے انسا ن تر قی کر تا جا رہا ہے، اپنی آسا نی کے لئے نت نئی ایجا د کر تا جا رہا ہے انہی تما یجا دا د میں انٹر نیٹ نے انسا نی زندگی اس کے رشتو ں اور اس کے رہن سہن میں انقلا ب پر پا کر دیا ہے، انٹر نیٹ سے ہمیں اہم معلو ما ت، تفر یح اور و ا بطہ تو حاصل کر رہے تھے، لیکن اب آن لا ئن شا پنگ، ٹر ین اور جہا ز کی بکنگ اور دیگر سہو لت بھی فرا ہم ہو رہی ہیں، اور تو اور آن لا ئن بینکنگ بھی انٹر نیٹ کے بدو لت ہے، اس میں اور انقلا ب کر پٹو کر نسی نے پر پا کر دیا ہے۔
اگر دیکھا جا ئے تو پو ری دنیا میں 97%لو گ انٹر نیٹ جیسے جدد سے نا کہ صر ف آشا نہ ہے بلکہ اس کے تر یقے استعما ل سے بھی با خو بی و ا قف ہے، اس ٹیکنلو جی کو رو ز بر و ز جدید بنا یا جا رہا ہے لیکن اس کے بر عکس ابتدا سے لیکر اب تک اکثر اس کا استعمال کر نے و الے لو گو ں کی تعد ا د زیاد ہ تر اس کا غلط استعما ل کر تی ہے، جب کے عا م طو ر پر انٹر نیٹ کا زیا دہ استعما ل معا شر ے میں منتقی رویو اور غیر سما جی سر گر میو ں کا با عث بن رہا ہے اس کے مز ید بر ے اثرا ت کا مختصر جا ئز اہ مند ر جہ ذیل ہے۔
انٹر نیٹ کا بیجا استعما ل سے ہما ری نو جو ان نسل کا تپکا معاشر تی اور سما جی فطنے کا شکا ر ہو رہا ہے، پہلے لو گ ملا قا ت کیلئے گل مل کر رہتے تھے، اب یہ سر گر میا ں معقف ہو تی جا رہی ہیں، جس سے سما جی تعلقا ت کا فی حد تک متا ثر ہو ئے ہیں، لو گ ہر قسم کی معلو ما ت انٹر نیٹ کے ذریعے حا صل کر نے کی کو شش کر تے ہے، جس کی وجہ سے کتا بو ں کا رجھا ن اب دم تو ڑتا جا رہا ہے، اور تو اور ایک خا ص طبقہ اس کے ذریعے غیراخلا قی، غیر قا نو نی، سر گر میا ں انجا م دیتے ہے دہشت گر دی کے ساتھ ساتھ کر پشن مافیا بھی اس کے ذریعے پر و ا ن چڑ تا جا رہا ہے، جو کہ کرپٹو کر نسی کی مدد سے غیر قا نو نی ہتیا ر، غیر قا نو نی ادو ا ت، ڈرگس، STCجیسے معلق زہر تک آپ بیٹھے بیٹھے رسا ئی حا صل کر سکتے ہیں۔
اب اگر با ت کی جا ئے کر پٹو کر نسی کی تو یہ ایک ایسی کر نسی ہے جو کہ کمپو ٹر کی مدد سے تخلیق کی جا تی ہے، اس میں کر پٹو گرا فی ہو تی ہے، جو کہ اس محفو ظ ہو نے کی ذما نت دیتی ہے اور اس کا نظام کمپو ٹر نیٹور ک کا محتا ج ہے جسے کسی بھی بینک یا ادا رے کی ضرو ر ت کی نہیں ہو تی اس کا نظا م مر کزی ہے، یعنی آسا ن لفظو ں میں سمجھا جا ئے تو اس کا کو ئی مر کز نہیں، اس وجہ سے اس کو رو کا نہیں جا سکتا اور نا کو ئی شخص یا ادا رے حکو مت رو ک سکتی ہے، اور نہ کو ئی ا س پر ٹیکس عا ئد کر سکتا ہے، اور یہ کر نسی  خا لی کمپو ٹر ہی بنا تے ہے، کچھ مشکل حسا بی عمل سے گز رکر مگر ہر تصو یر کے دو پہلو ہو ا کر تے ہے یہ انسا ن کے طر یقے   استعما ل پر منصر ہے، گھر بیٹھے بیٹھے سو ا لی منتخب کر نا جو کہ آپ کو گھر سے لیکر آپ کی منزل تک با حفا ظت پہنچا تی ہے یہ سب بھی انٹرنیٹ کی ہی وجہ سے ممکن ہو سکا ہے، انر نیٹ صر ف یہا ں تک محد ود نہیں بلکہ کو ئی بھی شخص گھر بیٹھے بیٹھے آن لا ئن  شا پنگ، آن لا ئن بلنگ، اس کے سا تھ سا تھ تعلیمی ادا رے میں دا خلہ فا ر م تک آن لا ئن ہو نے کی وجہ سے طلبا ء علم بھی اس سہو لت سے استفا دہ حا صل کر رہے ہیں جو کہ آن لا ئن کلا سس لیکچر کی صو ر ت میں بھی میصر ہے اور تو اور آن لا ئن بینکنگ کے ذریعے اپنی رقم کسی دو سرے بینک میں منتقل کر نے جیسی سہو لت بھی ہی انٹر نیٹ کا ہی دیا ہو ا تحفہ ہے جو کہ  انسا نی زند گی کو آسا ن بنا تا ہے۔
انٹر نیٹ کے فا ئدے صر ف یہی تک مختصر نہیں دو سرا ایک اور انقلا ب اور جدد E Stampکی سہو لت ہے، اس سہو لت کے ذریعے کو ئی بھی شخص گھر بیٹھے اپنی مر ضی اور ما لیت کا اسٹا مپ خر ید کر اس پر اان لا ئن تحر یر اور تصد یق محفو ظ بھی ہوتی ہے بلکہ اس کی نقل بھی حا صل کر سکتے ہے، الغر ض انٹر نیٹ کے ان تما م سہو لت کے اثرا ت نے انسا ن کو اس قدر متا ثر اور مجبو ر کر دیا ہے کہ وہ آج کے دو ر میں اسکے بغیر ایک قدم بھی نہیں چل اور نہ ہی کو ئی کا م کر سکتا ہے۔

Sunday, March 1, 2020

Sarfraz Noor Article Urdu MA

Revised
  SARFARAZ NOOR-M.A-Roll No.50-URDUخواجہ سرا۔حقوق اور حقیقتیں

ڈھول بجاتے،تالیوں کی گونج میں ناچتے گاتے،ہاتھ کی لکیروں سے خالی، نقلی بناوٹ اورچمکتے چہروں کے پیچھے ان گنت محرومیوں اور اداسیوں کو چھپاتے ہوئے، معاشرتی عیب، منحوس، فحش اور واحیات جیسے القاب سے نوازے  گئے خواجہ سرا ؤں کی زندگی کسی  اسرار سے کم نہیں۔ یہ پرسرار مخلوق وقت اور معاشرے کی طرف سے ہدیتا  پیش کی گئی تکلیفوں، پریشانیوں اور درد کو  غیر معیاری میک اپ سے چھپاتے ہوئے لوگوں میں حقیر سی رقم کے عوض خوشیاں بانٹتے ہیں۔ بے انتہا ت ذلیل اور دھتکار برداشت کرنے کے باوجود بھی یہ شیریں زباں رہتے ہیں اور کبھی بھی اپنے اندر کی کڑواہٹ کسی دوسرے پر نہیں انڈیلتے۔ قبل اس کے کہ ہم بات کریں  خواجہ سراؤں کی پاکستان اور ہمسائے ملک میں تعداد اور حقوق کی، اس سے پہلے نظر ڈالتے ہیں کہ آخریہ پرسرار مخلوق کون ہے، کیوں ہے اور کیسے ہے۔
تاریخ کے اوراق پلٹنے سے پتہ چلتا ہے کہ دور ماضی میں خواجہ سراؤں کو بادشاہ وقت کی طرف سے بڑی اہمیت حاصل تھی جو کہ اپنے بڑے بڑے حرم (بیویاں) کے محافظ کے طور پہ  بحیثیت دربان کام کرتے تھے، اسی وجہ سے انہیں خواجہ سرا  یعنی محل کے افسران کے نام سے محترم کرنے کی کوشش کی جاتی تھی۔ مجموعی طور پر پاکستان، بھارت اور بنگلادیش کے خطوں میں خواجہ سراؤں کی وسیع و عریض پرانی تاریخ موجود ہے۔
حالیہ مردم شماری 2017 کے مطابق پاکستان میں خواجہ سراؤں کی تعداد قریب دس ہزار رکارڈ کی گئی، بھارتی سروے ۱۱۰۲ء کے دوران خواجہ سراؤں کی تعداد چار لاکھ سے اوپر بتائی گئی،جبکہ بنگلادیشی  سوشل ویلفیئر منسٹری کے مطابق 2013 میں دس ہزار سے زائد رجسٹرڈ خواجہ سراؤں کی لسٹ پیش کی گئی۔ حال ہی میں تینوں ملکوں کی این جی اوز اور حکومت کے ما بین تعاون سے پہلی بار خواجہ سراؤں کے حقوق پر بات کی گئی،جن میں پاکستان،بھارت اور بنگلادیش میں مقیم خواجہ سراؤں کو اپنی بنیادی شناخت بحیثیت ٹرانس جینڈر کمیونٹی، سرکاری نوکری میں کوٹا، عوام کی طرف سے حراساں کئے جانے پر آواز اٹھانے کا حق اور وراثت میں حصیداری کے حقوق قابل غور رہے۔ ساتھ ساتھ قومی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ میں ان کی شناخت کے لئے "X" اور"E"  جینڈر کے آپشن کا اضافہ کیا گیا جس کے تحت خواجہ سرا نہ صرف ووٹ کے اندراج ک لئے قابل اطلاق ہونگے بلکہ مسلمان خواجہ سراؤں کے لئے حج و عمرہ کی سعادت حاصل کرنے کے دروازے بھی کھول دیئے گئے۔
سن 2018میں پاکستان کو خواجہ سراؤں کی شناخت تسلیم کرنے والا ایک ممتاز ملک مانا گیا، جس کی بڑی مثال انسانی حقوق کی وفاقی وزیر شیرین مزاری کا خواجہ سرا عائشہ مغل کو اپنے محکمے میں نوکری پر تعینات کرنا ہے۔پاکستان میں خواجہ سراؤں کی الگ شناخت کی ایک اور مثال لاہور کے نجی ٹی وی چینل کوہنور میں کام کرنے والی پہلی خواجہ سرا نیوز اینکر مارویہ ملک ہیں۔ لاہور میں سن 2017 میں قائم ہونے والا پہلا جینڈرگارڈین اسکول خواجا سراؤں کو تعلیمی حقوق دینے کے سلسلے میں پہلا عملی قدم ہے،مستقبل قریب میں کراچی،اسلام آباد اور دیگر شہروں میں بھی ایسے اسکول قائم ہونا متوقع ہے۔
پاکستان میں جہاں زیادہ تر خواجہ سرا اپنا پیٹ پالنے کے لئے ناچ گانے اور جسم فروشی کے کاروبار کا سہارا لیتے ہیں، وہیں کچھ خواجہ سراؤں نے اپنے ٹولوں سے بغاوت کر کے چھوٹی موٹی نوکری اور کاروبار جن میں بیوٹی پارلر، درزی کا کام، دودھ بیچنا، باورچی اور ڈرائیونگ کر کے خود کو معاشرے میں محترم کیا ہے۔
حالانکہ تینون ملکوں کی حکومت اور نجی اداروں کے تعاون سے خواجہ سراؤں کی تیسری صنف کی شناخت اور دیگر حقوق اور بہتری کے لئے موثر اقدامات کئے گئے ہیں، تاہم آج بھی زیادہ تر خواجہ سرا غربت اور مفلسی کی زندگی بسر کرتے ہوئے،شام ڈھلے پنکی،جولی،سجنی،چاہت،ڈولی اور ببلی جیسی نقلی شناخت لیئے سڑکوں پر بھیک مانگتے اور معاشرے کی دھتکار برداشت کرتے نظر آئینگے۔محبت اور رشتوں سے نا آشنا یہ مخلوق معاشرے کی طرف سے دیئے گئے فحش،لوفر،بد معاش اور انسانیت پر داغ جیسے القاب کو اپنے سینے میں دفن کر کے لوگوں کو صرف دعائیں دیتے ملیں گے۔




Subject line and file name are not proper. however it is posted.
Next time take care.
Proofing mistakes
figures have been changed in conversion write figures in English

  SARFARAZ NOOR-M.A-Roll No.50-URDU
خواجہ سرا۔ان دیکھے راز
Headline does not match with the content 
ڈھول بجاتے،تالیوں کی گونج میں ناچتے گاتے،ہاتھ کی لکیروں سے خالی، نقلی بناوٹ اورچمکتے چہروں کے پیچھے ان گنت محرومیوں اور اداسیوں کو چھپاتے ہوئے، معاشرتی عیب، منحوس، فحش اور واحیات جیسے القاب سے نوازے  گئے خواجہ سرا وئں کی زندگی کسی  اسرار سے کم نہیں۔ یہ پرسرار مخلوق وقت اور معاشرے کی طرف سے ہدیتا  پیش کی گئی تکلیفوں، پریشانیوں اور درد کو  غیر معیاری میک اپ سے چھپاتے ہوئے لوگوں میں حقیر سی رقم کے عوض خوشیاں بانٹتے ہیں۔ بے انتہا ت زلیل اور دھتکار برداشت کرنے کے باوجود بھی یہ شیریں زباں رہتے ہیں اور کبھی بھی اپنے اندر کی کڑواہٹ کسی دوسرے پر نہیں انڈیلتے۔ قبل اس کے کہ ہم بات کریں  خواجہ سراؤں کی پاکستان اور ہمسائے ملک میں تعداد اور حقوق کی، اس سے پہلے نظر ڈالتے ہیں کہ آخریہ پرسرار مخلوق کون ہے، کیوں ہے اور کیسے ہے۔
تاریخ کے اوراق پلٹنے سے پتہ چلتا ہے کہ دور ماضی میں خواجہ سراؤں کو بادشاہ وقت کی طرف سے بڑی اہمیت حاصل تھی جو کہ اپنے بڑے بڑے حرم (بیویاں) کے محافظ کے طور پہ  بحیثیت دربان کام کرتے تھے، اسی وجہ سے انہیں خواجہ سرا  یعنی محل کے افسران کے نام سے محترم کرنے کی کوشش کی جاتی تھی۔ مجموعی طور پر پاکستان، بھارت اور بنگلادیش کے خطوں میں خواجہ سراؤں کی وسیع و عریض پرانی تاریخ موجود ہے۔
حالیہ مردم شماری ۷۱۰۲ء کے مطابق پاکستان میں خواجہ سراؤں کی تعداد قریب دس ہزار رکارڈ کی گئی، بھارتی سروے ۱۱۰۲ء کے دوران خواجہ سراؤں کی تعداد چار لاکھ سے اوپر بتائی گئی،جبکہ بنگلادیشی  سوشل ویلفیئر منسٹری کے مطابق ۳۱۰۲ء میں دس ہزار سے زائد رجسٹرڈ خواجہ سراؤں کی لسٹ پیش کی گئی۔ حال ہی میں تینوں ملکوں کی این جی اوز اور حکومت کے ما بین تعاون سے پہلی بار خواجہ سراؤں کے حقوق پر بات کی گئی،جن میں پاکستان،بھارت اور بنگلادیش میں مقیم خواجہ سراؤں کو اپنی بنیادی شناخت بحیثیت ٹرانس جینڈر کمیونٹی، سرکاری نوکری میں کوٹا، عوام کی طرف سے حراساں کئے جانے پر آواز اٹھانے کا حق اور وراثت میں حصیداری کے حقوق قابل غور رہے۔ ساتھ ساتھ قومی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ میں ان کی شناخت کے لئے "X" اور"E"  جینڈر کے آپشن کا اضافہ کیا گیا جس کے تحت خواجہ سرا نہ صرف ووٹ کے اندراج ک لئے قابل اطلاق ہونگے بلکہ مسلمان خواجہ سراؤں کے لئے حج و عمرہ کی سعادت حاصل کرنے کے دروازے بھی کھول دیئے گئے۔
Check following para, I think its not so
سن ۸۱۰۲ء میں پاکستان کو خواجہ سراؤں کی شناخت تسلیم کرنے والا ایک ممتاز ملک مانا گیا، جس کی بڑی مثال انسانی حقوق کی وفاقی وزیر شیرین مزاری کا خواجہ سرا عائشہ مغل کو اپنے محکمے میں نوکری پر تعینات کرنا ہے۔پاکستان میں خواجہ سراؤں کی الگ شناخت کی ایک اور مثال لاہور کے نجی ٹی وی چینل کوہنور میں کام کرنے والی پہلی خواجہ سرا نیوز اینکر مارویہ ملک ہیں۔ لاہور میں سن ۷۱۰۲ء میں قائم ہونے والا پہلا جینڈرگارڈین اسکول خواجا سراؤں کو تعلیمی حقوق دینے کے سلسلے میں پہلا عملی قدم ہے،مستقبل قریب میں کراچی،اسلام آباد اور دیگر شہروں میں بھی ایسے اسکول قائم ہونا متوقع ہے۔
پاکستان میں جہاں زیادہ تر خواجہ سرا اپنا پیٹ پانے کے لئے ناچ گانے اور جسم فروشی کے کاروبار کا سہارا لیتے ہیں، وہیں کچھ خواجہ سراؤں نے اپنے ٹولوں سے بغاوت کر کے چھوٹی موٹی نوکری اور کاروبار جن میں بیوٹی پارلر، درزی کا کام، دودھ بیچنا، باورچی اور ڈراونگ کر کے خود کو معاشرے میں محترم کیا ہے۔
ھالانکہ تینون ملکوں  کی حکومت اور نجی اداروں کے تعاون سے خواجہ سراؤں کی تیسری صنف کی شناخت اور دیگر حقوق اور بہتری کے لئے موثر اقدامات کئے گئے ہیں، تاہم آج بھی زیادہ تر خواجہ سرا غربت اور مفلسی کی زندگی بسر کرتے ہوئے،شام ڈھلے پنکی،جولی،سجنی،چاہت،ڈولی اور ببلی جیسی نقلی شناخت لیئے سڑکوں پر بھیک مانگتے اور معاشرے کی دھتکار برداشت کرتے نظر آئینگے۔محبت اور رشتوں سے نا آشنا یہ مخلوق معاشرے کی طرف سے دیئے گئے فحش،لوفر،بد معاش اور انسانیت پر داغ جیسے القاب کو اپنے سینے میں دفن کر کے لوگوں کو صرف دعائیں دیتے ملیں گے۔



Jaweria Salah MA- Article Urdu -Revised

No paragraphing
Google search is no source, u should have written proper source even if searched thru google.
points raised in first version remain unanswered.
How much water is needed to this population? What is international standard of water consumption for a person? only then we can calculate the shortage of water
Whatever we say it should be quantified, give proofs,

حیدرآباد میں پانی کی کمی
Jaweria Salahuddin MA- Article Urdu
Jaweria
Roll No. 25
MA. Previous
اس وقت حیدرآباد سندھ بہت سے مسائل کا شکار ہے اس میں پانی کی کمی سر فہرست ہے جس کی وجہ سے حیدرآباد کے لوگوں کو بہت سے پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔حیدرآباد میں بہت سی وجوہات ہیں جو پانی کی کمی کا باعث بن رہی ہیں۔ماحولیاتی آلودگی اس میں سرِ فہرست ہیں۔فیکٹریوں اور کارخانوں کا ناقص نظام زیر زمین پانی کو بے حد گندا کررہا ہے۔آلودگی قدرتی ماحول کو خراب کرنے کے ساتھ ساتھ قدرتی وسائل بھی متاثر کرتی ہے۔حیدرآباد کو پانی جامشورو سے دیا جاتا ہے H.D.A کے ذریعے اس وقت حیدرآباد کی پچاس سے ساٹھ لاکھ ہے اور جس تیزی سے آبادی میں اضافہ ہورہا ہے اس لئے ہی پانی کے مسائل پیدا ہورہے ہیں اس وقت حیدرآباد ڈسٹرکٹ کا گروتھ ریٹ 44% ہے جبکہ اس وقت حیدرآباد میں 40% پانی کی کمی ہے۔جبکہ ہمارے پاس پانی وافر مقدار میں موجود ہے لیکن ہمارے پاس اسٹور کرنے کی سہولت موجود نہیں اس کی بہت سے وجوہات ہیں۔ حیدرآباد سندھ بھی اس مسئلے کا شکار ہے۔حیدرآباد میں بہت سے وجوہات ہیں جو پانی کی کمی کا باعث بن رہی ہیں۔ماحولیاتی آلودگی اس میں سرِ فہرست ہے۔فیکٹریوں اور کارخانوں کا ناقص نظام زیرِ زمین پانی کو بے حد گندا کررہا ہے۔آلودگی قدری ماحول کو خراب کرنے کے ساتھ ساتھ قدرتی وسائل بھی متاثر کرتی ہے۔اس وقت حیدرآباد کی آبادی پچاس سے ساٹھ لاکھ ہے اور حیدرآباد کو پانی جامشورو سے دیا جاتا ہے H.D.A کے ذریعے اس وقت حیدرآباد میں 40% پانی کی کمی ہے اور اس کی وجہ پرانی لائن ہے اور پانی اسٹور کرنے کی سہولت موجود نہیں ہے۔حیدرآباد کے کچھ علاقوں میں پانی کی لائن کی سہولت موجود نہیں ہے اور بہت سی جگہوں پر پانی کی لائن خراب ہے اور ان مسئلوں کو حل نہیں کیا جاتا۔جس کی وجہ سے لوگوں کو بہت سی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔حیدرآباد میں پانی کی اسٹوریج کم ہے اور پانی کی ضرورت بہت زیادہ ہے جتنی ضرورت ہے اس سے کم پانی دیا جاتا ہے۔حیدرآباد میں ٹوٹل دو پمپنگ اسٹیشن ہیں لیکن حیدرآباد کو ضرورت چار سے چھ پمپنگ اسٹیشن کی ضرورت ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ حیدرآباد کی بڑھتی ہوئی آبادی اور قلت آب کے باعث حیدرآباد کے شہری انتہائی پریشان ہوتے ہیں جبکہ کچھ اندرونی ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ ٹینکر مافیا اور پبلک ہیلتھ کی ملی بھگت سے بھی پانی کی مصنوعی قلت پیدا کی جاتی ہے جس کا فائدہ ٹینکر مافیا کو ہوتا ہے۔قلت آب پر ٹینکر مافیا پانی ٹینکر فراہمی کی قیمتوں میں بے جا اضافہ کرتے ہیں جس سے غریب عوام بہت مشکل میں پڑ جاتی ہے۔مکمل صورتحال میں ضرورت اس بات کی ہے ضلعی انتظامیہ محکمہ پبلک ہیلتھ،میونسپل انتظامیہ ان معاملات پر نظررکھیں اور پانی کی مصنوعی قلت پیدا کرنے والوں پر سخت ایکشن لیں اور حیدرآباد کے ہر ایک شہری کو صاف پانی کی فراہمی یقینی بنائیں تاکہ حیدرآباد کی عوام زندگی کی بنیادی ضرورت صاف پانی سے مستفید ہوسکیں۔واسا ہر سال 471 ملین کا بل حیدرآباد ڈسٹرکٹ کو دیتا ہے جبکہ اس کی ریکوری صرف125ملین پر انم ہوتی ہے جو کہ بہت بڑا فرق ہے۔ واسا حیدرآباد کا ایک بہت اہم ادارہ ہے جو کہ اس وقت چار اہم فلٹریشن پلانٹ چلا رہا ہے دو فلٹر پلانٹ پینے کا پانی سپلائی کرتے ہیں ایک لطیف آباد تعلقہ اور دوسرا تعلقہ قاسم آباد اور باقی کے دو فلٹر سپلائی مالز،بینکوئیٹ ہال اور کمرشل،فلیٹ اور رہائشی ہاؤسنگ اسکیم کو کرتے ہیں۔ہماری گورنمنٹ کو چاہیے کہ ٹینکر مافیا کو کنٹرو کرے اور لائن کی مرمت کرائے اور فلٹر پلانٹ بڑھا دیئے جائیں اور پمپنگ اسٹیشن کی تعداد بڑھا دی جائے۔

Ref by Google Search.


In article figures facts are important, and for their authenticity quote official or other reports.
What is population of Hyderabad and what is it growth rate?
How much water is needed to this population? What is international standard of water consumption for a person? only then we can calculate the shortage of water
Whatever we say it should be quantified, give proofs,
Intro is extra.no need of this para
Observe paragraphing. at least 6 paragraphs for 600 words
Referred back 
File again till March 3


حیدرآباد میں پانی کی  کمی
 جویرا
Jaweria
Roll No. 25
MA. Previous

اس وقت دنیا میں جس رفتار سے پانی کی کمی کا مسئلہ پیش آرہا ہے ڈر ہے کہ کہیں پانی کا بھی عالمی دن نہ منانا پڑجائے۔پاکستان کے پاس آج بھی وافر پانی ہے لیکن فی کس پانی کی مقدار کا پانچواں حصہ رہ گیا ہے او ر وجہ یہ ہے کہ ہماری آبادی 1951 کے مقابلے میں آج پانچ گنا زیادہ ہے۔ہمارا نوے فیصد پانی زراعت میں استعمال ہوتا ہے۔کسان کھیت کو پانی سے لبالب بھر دیتے ہیں۔جتنے پانی سے ہمارے ہاں ایک ایکڑ سیراب ہوتا ہے یورپ اور امریکہ میں کئی ایکڑ آپ پش ہوجاتے ہیں۔وہاں فصلوں کو پانی،بجلی کے فواروں سے دیا جاتا ہے۔ہمارے دریاؤں میں مئی سے اگست یعنی چار ماہ بہت زیادہ پانی ہوتا ہے اور باقی آٹھ ماہ بہت کم۔چونکہ فالتو پانی ذخیرہ کرنے کی ہماری استعداد بہت کم ہے۔لہذا ٹیوب ویل سے زیرِ زمین پانی نکالا جاتا ہے۔ پاکستان میں اس وقت دس لاکھ سے اوپر ٹیوب ویل ہیں۔نتیجہ یہ ہے کہ زیرِ زمین پانی کا لیول بہت نیچے چلا گیا ہے اور اس لیول کی ریگولیٹ کرنے کا کوئی ادارہ نہیں۔ 
حیدرآباد سندھ بھی اس مسئلے کا شکار ہے۔حیدرآباد میں بہت سے وجوہات ہیں جو پانی کی کمی کا باعث بن رہی ہیں۔ماحولیاتی آلودگی اس میں سرِ فہرست ہے۔فیکٹریوں اور کارخانوں کا ناقص نظام زیرِ زمین پانی کو بے حد گندا کررہا ہے۔آلودگی قدری ماحول کو خراب کرنے کے ساتھ ساتھ قدرتی وسائل بھی متاثر کرتی ہے۔
who says?
اس وقت حیدرآباد کی آبادی پچاس سے ساٹھ لاکھ ہے اور حیدرآباد کو پانی جامشورو سے دیا جاتا ہے H.D.A کے ذریعے اس وقت حیدرآباد میں 40% پانی کی کمی ہے اور اس کی وجہ پرانی لائن ہے اور پانی اسٹور کرنے کی سہولت موجود نہیں ہے۔حیدرآباد کے کچھ علاقوں میں پانی کی لائن کی سہولت موجود نہیں ہے اور بہت سی جگہوں پر پانی کی لائن خراب ہے اور ان مسئلوں کو حل نہیں کیا جاتا۔جس کی وجہ سے لوگوں کو بہت سی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔حیدرآباد میں پانی کی اسٹوریج کم ہے اور پانی کی ضرورت بہت زیادہ ہے جتنی ضرورت ہے اس سے کم پانی دیا جاتا ہے۔حیدرآباد میں ٹوٹل دو پمپنگ اسٹیشن ہیں لیکن حیدرآباد کو ضرورت چار سے چھ پمپنگ اسٹیشن کی ضرورت ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ حیدرآباد کی بڑھتی ہوئی آبادی اور قلت آب کے باعث حیدرآباد کے شہری انتہائی پریشان ہوتے ہیں جبکہ کچھ اندرونی ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ ٹینکر مافیا اور پبلک ہیلتھ کی ملی بھگت سے بھی پانی کی مصنوعی قلت پیدا کی جاتی ہے جس کا فائدہ ٹینکر مافیا کو ہوتا ہے۔قلت آب پر ٹینکر مافیا پانی ٹینکر فراہمی کی قیمتوں میں بے جا اضافہ کرتے ہیں جس سے غریب عوام بہت مشکل میں پڑ جاتی ہے۔مکمل صورتحال میں ضرورت اس بات کی ہے ضلعی انتظامیہ محکمہ پبلک ہیلتھ،میونسپل انتظامیہ ان معاملات پر نظررکھیں اور پانی کی مصنوعی قلت پیدا کرنے والوں پر سخت ایکشن لیں اور حیدرآباد کے ہر ایک شہری کو صاف پانی کی فراہمی یقینی بنائیں تاکہ حیدرآباد کی عوام زندگی کی بنیادی ضرورت صاف پانی سے مستفید ہوسکیں۔واسا ہر سال 471 ملین ؟؟ کا بل حیدرآباد ڈسٹرکٹ ؟؟ کو دیتا ہے جبکہ اس کی ریکوری صرف125ملین پر انم ہوتی ہے جو کہ بہت بڑا فرق ہے۔ واسا حیدرآباد کا ایک بہت اہم ادارہ ہے جو کہ اس وقت چار اہم فلٹریشن پلانٹ چلا رہا ہے دو فلٹر پلانٹ پینے کا پانی سپلائی کرتے ہیں ایک لطیف آباد تعلقہ اور دوسرا تعلقہ قاسم آباد اور باقی کے دو فلٹر سپلائی مالز،بینکوئیٹ ہال اور کمرشل،فلیٹ اور رہائشی ہاؤسنگ اسکیم کو کرتے ہیں۔ہماری گورنمنٹ کو چاہیے کہ ٹینکر مافیا کو کنٹرو کرے اور لائن کی مرمت کرائے اور فلٹر پلانٹ بڑھا دیئے جائیں اور پمپنگ اسٹیشن کی تعداد بڑھا دی جائے۔

Wednesday, February 26, 2020

Farhan Ali Article Urdu MA Referred back

Referred back
Late
اگر ایک سو آٹھ ڈیلر ہیں اور ہر روزانہ دو سو سے ڈھائی سو جنریٹر بیچتے ہیں ہے تو  مہینے میں سال میں  چوبیس لاکھ تیس ہزار جنریٹر ہو گئے۔ اگر تین سال کا ہی حساب لگا لیں  تو حیدرآباد والوں نے پچہتر لاکھ  جنریٹر خرید کرلئے۔ یہ منطق سمجھ سے باہر ہے۔  لہٰذا یہ اعدادوشمار صحیح نہیں۔  کیا آپ نے یہ اعدادوشمار کسی سے لئے ہیں؟ سچ ہے تو اس کا نام اور اسو سی ایشن کا عہدہ بھی لکھو۔ 
 مستریوں کی تعداد آپ نے  ایک سو ستر لکھی ہو جو روزانہ اڑھائی سو جنریٹر ٹھیک کرتے ہیں یا خراب ہوتے ہیں ٹیونگ ہوتی ہے  یعنی  اوسطا ایک جنیرٹر کی مرمت وغیرہ پر پانچ سو روپے خرچ ہوتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ حیدرآباد کے شہری  روزانہ اڑھائی لاکھ روپے جنیرٹروں کی مرمت ٹیونگ پر خرچ کرتے ہیں۔ حیدرآباد کے شہریوں کا جنریٹروں کی سروس وغیرہ کی مد میں ماہانہ خرچ پچہتر لاکھ  بنتا ہے۔ اور سالانہ  خرچہ نو کروڑ روپے بنتا ہے۔  سوال یہ ہے کہ واقعی ایسا ہی ہے؟  حیدرآباد کی کل آبادی کو نظر میں رکھو
اگر یہ حقیقت ہے تو ان پر پیٹرول وغیرہ کا خرچہ نکالا جائے تو  مہینے میں کروڑوں روپے اس  مد میں خرچ ہو رہے ہیں۔ 
 اعدا وشمار کسی نمائندہ تنظیم سے لو، اور ان کا عہدہ اور نام ڈالو
املا کی بہت ساری غلطیاں ہیں۔
یہ چار سو چلایس الفاظ ہیں، چھ سو ہونی چاہئے۔
U send file in Bo1 format, its template of inpage, not exact inpage.

Farhan Ali Article Urdu MA Roll 19

 فرحان آرائیں آرٹیکل اردو  MA  رول نمبر  ۹۱
؎حیدرآباد میں جنریٹر کا استعمال
جنر یٹر الیکٹرک کرنٹ سپلائے کرتاہے حیدرآباد میں بہت سارے جنیٹر خریدوفروخت کئیے جاتے ہیں حیدرآباد شہر میں بہت بڑے بڑے جنریٹر کے ڈیلر ہیں جن کی رہائیش مختلف علاقوں میں ہے حیدرآباد میں جنریٹر کی خریدوفروخت ۵۶۹۱ سے چلی آرہی ہے حیدرآباد میں سب سے پہلے سیل ڈیلر  احمد  علی  شیخ تھے جنہوں نے جون۵۶۹۱  میں پہلا  الیکٹرک جنریٹر کھا تھا گاڈی کھاتہ میں آج بھی احمد آٹوز کے سے وہی دکان مشہور ہے اورموجود ہے وہاں سے لوگ آج بھی الیکٹرک جنیٹر خریدو فروخت کرتے ہیں۔
حیدرآباد  کے جنریٹر سیل ڈیلر اور ان کی تعدادحیدرآباد کے  ۸۰۱  لوگ جنریٹر سیل ڈیلر ہیں حیدرآباد میں ہر روز ۰۰۲  سے ۰۵۲ جنیٹر سیل کیئے جاتے ہیں حیدرآباد سیل ڈیلرو کے پاس مختلف کمپنیوں کے جنر یٹر موجود ہیں ان کے نام کچھ اس طرح ہیں ہنڈا،یونیک،جاسکو،ہومیگ یوروسٹار،سوزوکی، حیدرآباد کے علاقے میں قاسم آباد میں جنریٹرکے ۲۳ سیل ڈیلر ہیں گاڈی کھاتہ میں ۵۵ سیل ڈیلر ہیں لطیف آباد میں جنر یٹر کے ۱۲ سیل ڈیلر ہیں اور بھی مختلف قالو نیوں میں جنریٹر کے سیل ڈیلر موجود ہیں قل ملا کر حیدرآباد میں جنیٹرکے۶۱۱ سیل ڈیلر موجود ہیں۔
حیدرآباد میں جنریٹر کے مستریوں کی تعدادحیدرآباد شہر میں ٹو ٹل ۰۷۱ جنیٹر کے مستری ہیں حیدرآبادشہر گاڈی کھاتہ میں ۵۶ مستری ہیں اور لطیف آباد میں ۳۴ مستری اور مختلف علاقوں میں جنریٹر کے مستری موجود ہیں حیدرآباد کے جو پرانے اورسنیئر مستری ہیں وہ جنریٹرسروس کے ۰۰۷ روپے لیتے ہیں اور جوجونیئر مستر ی ہیں ان کی جنریٹرسروس کے ریٹ مختلف ہیں حیدرآباد کی ہر قالونی میں ۰۱ سے ۲۱ مستری موجود ہیں جو جنریٹر کا کام اچھی طرح اور بہ رعایت کرتے ہیں حیدرآباد کے مستریوں کے پاس ہر روز۰۰۲ سے ۰۰۳ جنریٹرسروس کے لیے اور ٹیوننگ کے لیے آتے ہیں حیدرآباد میں ہر روز ۰۰۴ سے ۰۰۵ جنریٹر خراب ہو تے ہیں۔
حیدرآباد شہر میں جریٹر استعمال کرنے والو ں کی تعداد۰۳ فیصدہے جو اپنے گھروں اور دکانوں میں جنریٹرکا استعمال کرتے ہیں حیدرآباد شہر میں ہر روز ۰۲ فیصد لوگوں کے جنریٹر خراب ہوتے ہیں حیدرآباد کے ۵ فیصد شہری ہر روز پرانے جنریٹروں کو بیچ کر نئے جنریٹر خریدتے ہیں حیدرآباد کے ۰۲ فیصد لوگ جنریٹر
 استعمال نہیں کرتے حیدرٓباد میں دس فیصد لوگ ایسے بھی ہیں جو غریب ہیں اور وہ جنریٹڑ کاخرچہ برداشت نیں کر سکتے اسی وجہ سے وہ جنریٹر کا استعمال نہیں کرتے حیدرآباد شہر کے دس فیصد لو گ ایسے بھی ہیں خرچہ برداشت تو کر سکتے ہیں لیکن وہ شارٹ سرکٹ سے ڈرتے ہیں اور جنر یٹر کی وجہ سے آگ لگنے سے بھی کیوں کے جنریٹر کی ٹینکی میں پٹرول ہوتا ہے جس کا بہت خیال رکھنا پڑتا ہے
حیدرآباد میں کرائے پر جنریٹر کا استعمال ہر روز جنریٹر شادیوں اور فنکشن میں ۰۶ جنریٹڑ کرائے پر دئے جاتے ہیں حیدرآباد میں ۵۲ دکانیں اسے ہیں جو صرف جنریٹر کرائے پر دیتے ہیں حیدرآباد کے شہر ی ہر روز ۷۳ سے ۸۳ جنریٹر کرائے پراپنوں گھروں کے استعمال کے لیے لے کر جاتے ہیں جنریٹر گھنٹوں کے حساب سے کرائے پر دیا جاتا ہے اور دنوں کے حساب سے بھی جنریٹر کا فی گھنٹہ کرایا ۰۰۳ روپے اور ایک دن کا کرایا ۰۰۵۱ روپے ہے۔
حیدرآباد کی فیکٹریوں میں بھی جنر یٹر کا استعمال ہوتا ہے حیدرآباد میں چھوٹی بڑی ۶۱ فیکٹریاں ہیں ہر فیکٹری میں دو جنریٹر موجود ہوتے ہیں حیدرآباد کی ٹوٹل فیکٹریوں میں ۰۳ سے ۲۳ جنریٹر موجود ہوتے ہیں ہر روز حیدرآباد کی فیکٹریوں میں ۲ سے ۳ جنریٹر خراب ہوتے ہیں۔

Tuesday, February 25, 2020

Syed Najaf Shah article Urdu Referred back

U sent it on Feb 23, after expiry of deadline 
Referred back
File name is wrong
U should have to give figures facts, how many clubs are registered with divisional cricket board etc
In old city areas, Latifabad, ect  
آج کل حیدرآباد میں کرکٹ کی سرگرمیاں اور کلب سے
   سید نجف علی شاہ 
SYED NAJAF ALI
Article-MA-Roll#57 
حیدرآباد میں ایسے بہت سے کلب ہیں جس میں بہت ہی زیادہ ہنر مند لڑکے موجود ہیں کہنے کو تو حیدرآباد شہر ایک چھو ٹا سا شہر ہے لیکن یہاں لڑکوں میں کرکٹ فیور بہت ہے مثلاٌ بچوں کے ساتھ بڑے بھی اس کھیل کا جنون رکھتے ہیں یہاں تک کے         رمضان المبارک میں نائٹ کرکٹ ٹورنامنٹ کرائے جاتے ہیں جو رات دیر سحری تک چلتے ہیں ان ٹورنامنٹ میں صرف عام لوگ ہی نہیں بلکہ بڑی بڑی شخصیات مثلاًسیاسی اور سماجی سیلبر ٹی اور ساتھ ہی ساتھ قانون نافذکر نے والے ادارے بھی ان ٹورنامنٹس میں حصہّ لیتے ہیں جب کہ گرمیوں میں ٹیپ بول پر میچ کرائے جاتے ہیں اور سردیوں میں ہارڈ بول پر میچز کرائے جاتے ہیں۔"اب ہم بات کر تے ہیں کلب کرکٹ کی" حیدر آباد میں ایک ایسا کلب ہے جو خان گراؤنڈ کے نام سے جانا جاتا ہے یہ کلب حیدرآباد کا سب سے بڑے قبرستان ٹنڈویوسف کے قریب ہی واقع ہے اس خان کلب میں جس میں ٹیلینٹیڈلڑکے ہیں اسی کلب سے دو نوجوان کرکٹر انٹرنیشنل کرکٹ کیلئے منتخب کیئے گئے ہیں یہ دونوں نوجوان جو فخرِ حیدرآبا د ہیں ان کا نام (شرجیل خان)اور(محمد حسنین)ہیں ان دونوں نے انٹر نیشنل کرکٹ میں بہت نام کمایا ہے جیسے کے شرجیل خان نے اپنی بیٹنگ پاور سے پوری پاکستانی ٹیم کی شان میں اضافہ کیا ہے انہوں نے اپنی بیٹنگ سے پاکستانی ٹیم کو ہر میدان میں سے فتح ہمکنار کروایا ہیں اور جہاں تک کے محمد حسنین کی بات ہے تو انہوں نے اپنے بولنگ کا جادو دکھا کر اپنی مدا حوں کے دل جیتے محمد حسنین نے 19سال کی عمر میں اپنی شاندار بولنگ کے جوہر دکھائے اور محمد حسنین نے پاکستان سپر لیگ میں بہت سے اعزازات حاصل کیے اور اس کرکٹ کلب کے اونر /کو چ محمد اقبال ملک خان ہیں۔ "اب بات کر تے ہیں ایان کرکٹ کلب"یہ کلب لطیف آباد نمبر08 میں واقع ہے کہ اس میں بھی بہت سے ہنرمند لڑکے شامل ہیں اس اکیڈمی سے تو میں بھی کھیلتا ہوں ایک بولر کی طرح آف ا سپینر میں ہر ہفتے کو کرکٹ کی پریکٹس کر تا ہوں اور اتوار کو ہماری کرکٹ ٹیم مینجمنٹ میچ آرگنائزکراتی ہیں میں اپنی ٹیم کا وائس کپتان ہوں اور ہمارے کوچ کا نام محمد شاکر ہے اور شکیل کے کے جوکہ ایان کرکٹ کلب کے اونر ہیں اس کے ساتھ ہی اسٹوڈنٹ جیم خانہ کرکٹ کلب بھی شاکر بھائی کا ہے مگر یہ جیم خانہ کرکٹ کلب سینئر ز کا ہے اور ایان کرکٹ کلب جونیئرز کا ہے اور اسٹوڈنٹ جیم خانہ کر کٹ کلب گل سینٹر پر واقع ہے۔
" ایسا ہی ایک اور کرکٹ کلب ہے جس کا نام تاج ولی ہے " جوکوہسار میں واقع ہے یہ کرکٹ کلب بھی بہت مشہور ہے اس ہی کلب سے ایک اور پلیئر انٹرنیشنل کرکٹ ٹیم کے لئے نامزد کیا گیا تھا اور اس مشہور کرکٹر کا نام" گل بدین " ہے  اس نے پاکستانی Under/19میں بیسٹ فیلڈنگ میں چوتھے نمبر پر اعزازی تمغہ حاصل کیا تھالیکن اس کانام  پاکستانی انٹرنیشنل ٹیم میں نام ضروری آیا تھا زمبابوے کے خلاف لیکن صحت ناثاز ہونے کے باعث میچ میں نہیں کھلایا گیا تھا۔"ٹیب بول کرکٹ کی بات"اگر ٹیب بول کی ہم بات کریں تو ایسی بہت سی مشہور و معروف اور نامی گرامی ٹیمیں موجود ہیں جن میں بلوچ اسپورٹ،  نائٹ رائیڈرز، حیدرآباد را ئلز سیّد اسپورٹس اور ایگل اسپورٹس بھی شامل ہیں بلوچ اسپورٹس نے بہت سی کامیابیاں اپنے نام کی ہیں اکثر نائٹ کرکٹ ٹورنامنٹ میچ میں بلوچ اسپورٹس فاتح رہی ہے بلوچ اسپور ٹس کے اورنر اورکوچ محمد عدنان شیخ ہیں۔      اسی طرح ہمیں چاہیے کہ ہم حیدرآباد میں کرکٹ کو زیادہ سے زیادہ پھیلائیں اور
 میڈیا کی مدد لے کر کرکٹ کے نوجوانوں کو حیدرآباد کی چھوٹی سی چھوٹی جگہ سے تما م ہنر مند لڑکوں اور لڑکیوں کو منظرِ عام پر لیکر آئیں۔پاکستان کرکٹ بورڈ 
سے گزارش ہے کہ وہ پاکستان میں کرکٹ کی راہیں ہر کسی کے لئے ہموار کریں۔

ویسے تو پاکستان میں انٹر نیشنل کرکٹ کی واپسی ہوگئی جو کہ بحیثیت پاکستانی 
حیدرآباد کی عوام کے لئے بھی خوش آئند بات جس کے لئے ہم کرکٹ بورڈ اور تما م اس میں اہم کر دار ادا کرنے والوں کو حیدرآباد کی طرف سے مبارک بات پیش کر تے ہیں اور اس کے ساتھ پاکستان کرکٹ بورڈ سے گزارش بھی کرتے ہیں کہ حیدرآباد میں بھی انٹرنشنل کرکٹ کو واپس لانے اور حیدرآباد میں میچز کرانے کے لئے جلد از جلد اقدامات کریں حیدرآباد کا نیاز اسٹیڈیم جو کہ تباہ حالی کا شکار اس کو بھی آباد کیا جائے حیدرآباد کی عوام اور یہاں کے نوجوان جن میں ا حساس محرومی بڑھ رہا ہے اُس کو ختم کرنے کے لئے حکومت ِ پاکستان اور چیئر مین کرکٹ بورڈ جلد از جلد اقدامات کریں اور اسٹیڈیم کی بہتری کے لئے احکامات صادر فرمائیں تاکہ حیدرآبا د کی عوام کو ایک اچھا انٹر ٹینمِنٹ حاصل ہوسکے۔ہم اُمید کرتے ہیں کے ہماری اس درخواست پر خاص طور پر نظرِ ثانی فرماکر ہمیں شکریہ کا موقع فراہم کریں گے۔

Monday, February 17, 2020

Aisha Aslam Article Urdu MA 09

No para graphing
Article or feature?

غیر ضروری کاما نہ لگائیں۔ حادثات کی تعداد لکھیں لیکن اس کا کوئی  مستند ذریعہ لکھیں۔ حادثات میں پچیس ہزار لوگ مر جاتے ہیں؟؟ کیسے معلوم؟ شادیوں کی تعداد کہاں سے لائے ہیں وہ ذریعہ لکھیں۔ جو چیز کہہ رہے ہیں اس کا ثبوت  ہونا چاہئے۔ 

سندھ میں ٹریفک جام وجہ سے نقصانات اور مضراثرات

                :      عائشہ   محمد اسلم
رول نمبر                  :        2K20/MMC/9     
سندھ میں ٹریفک جام کی وجہ سے انٹرویو میں لیٹ ہونے کے اثرات کچھ یہ ہیں ۔آج انٹرویووالے دن میں انٹرویو کے لیئے گھر سے نکلا/نکلی اور اسی بر وقت جس سڑک سے میرا زگزر تھا و ہیں قریب گتے کی فیکٹری میں لگی آگ کی وجہ سے ٹریفک بہت جام تھا جس کی وجہ سے ٹریفک کو بحال ہو نے میں ڈیڑھ گھنٹہ لگا اس صورت میں مجھے جاب انٹرویو میں پہنچنے کیلئے بہت دیر ہو ئی دفتر میں جاب انٹرویو شروع ہو چکا تھا ٹریفک  جام ہو نے کی صور ت میں پہلے ہوہی ٪2میرے نمبر کاٹ لئے گئے پھر مجھے انٹرویو کے کمرے میں بلا گیا سیٹ پر بیٹھتے ہی میرے تعارف کے بعد پہلا سوال مجھ سے  پو چھا گیا کہ آپ کا نام اول نمبر پر پکا را گیا تھا جب آپ  کہا ں تھے /تھیں آپ کو جاب انٹر ویومیں دیر سے آنے کی کیا وجہ ہے آپ کو ٹائم سے پہلے دفتر میں موجود ہو نا چاہیے تھے میں نے سر کی بات سننے کے بعد میں نے تسلی بخش جواب دیا کہ میرے گھر سے نکلنے کےبعد جس سڑک سے میر اگزر تھا وہاں قریب ہی گتے کی فیکڑی میں لگی آگ کی وجہ سے مجھے آنے میں بہت تا خیر ہوئی اس وجہ سے میرا نام جاب انٹر ویوکی میرٹ لسٹ سے خارج کر دیا گیا ۔(''اس کا ریشو'') 3پوسٹ پر 12 امید وار آنے تھے جس میں ٹر یفک جام مسئلے کی وجہ سے 5امید وار جلدی آنے کی وجہ سے جاب   انٹر ویو کی سیٹ سنبھالنے سے قا صر رہے ۔ ''اب اگر ہم سندھ میں ٹر یفک جام پر مزید نظر ڈالیں تو طالباء کا اسکول  کالجز ، یو نیورسٹیز میں دیر سے پہنچنے کے نقصا نات اور مستقبل میں ہونے والے مضر اثرات ''ٹر یفک جام ہونے کے سبب طالبات اکثر کلاس میں دیر سے پہنچنے کے اور دیر سے کلاس میں پہچنے کی وجہ سے اور طالبات جب گھر سے نکلتے ہیں اس کا اسکول ، کالج 20منٹ کی دوری پرہو تا ہے یہ راستہ کچھ ہی دیر میں طے کیا جا سکتا ہے لیکن ٹر یفک جام ہونے کی وجہ اور پھر سٹرکوں کی بہت خستہ حالت ، سٹر کو ں کی ٹو ٹ پھوٹ ہو تی ہے طالبا ت اسکو ل ، کا لجزسے قبل تھو ڑی دور ہو تا ہے تو آگے گٹر ابلے ہوئے ہوتے پانی انتہا کا بھرا ہوا ہوتا ہے جس کی وجہ سے طالبات کواسکول ، کالجز ٹائم پر پہنچنے کے بجائے وہ 25 منٹ یا کچھ اور منٹ دیر سے پہنچتا ہے تو اسکول، کالجز کے پرنسپل اسے سزادیتے ہیں سندھ میں ٹریفک جام کی وجہ سے ان طالبات کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ ان کی کلاس کا پہلا پیریڈ یعنی پہلا لیکچر نکل جاتا ہے جس میں ان کی پڑھائی کا بہت حرج ہوتا ہے جس کی وجہ سے اسی کلاس ٹیچر کے امتحان میں نمبر کم اٹھاتے ہیں اور اسی کلاس ٹیچر کے سبجیکٹ کی معلومات ہمیں بہت کم ہوجاتی ہے۔"اب ہم بات کرتے ہیں سندھ میں ٹریفک جام مسئلے کو نظر ثانی کرتے ہوئے انسانی جان کھودینا"دن پیر کا تھا گھر میں شادی کی دھوم مچی ہوئی تھی کہ گھر میں آئے مہمان کو اچانک ہتھیلی میں درد ہوا اس کو ہم قریبی ڈاکٹر کے پاس لے جا رہے تھے کے گلی میں چھوٹے بچوں کارش  اور اوپر سے گلی میں کافی جمپس  اور چھوٹی گلی اور اسی میں ٹوٹ پھوٹ ہونے کی وجہ سے قریبی ڈاکٹر ہونے کے باوجود ہم دیر سے پہنچے ٖٖڈاکٹر نے مریض کو دیکھ کر بولا کہ ایمرجنسی کیس  ہے اسے لال بتی لے جائیں- ہم نے ایمبولینس کو کال کی کہا کہ ''پکا قلعہ دو قبر کے نزدیک مکان نمبر132'' پر پہنچ جا ئیں ایمبولینس کے انچارج نے کہا کہ ہم 10 منٹ میں بھیجتے ہیں یہاں  مر یض کی حا لت مزید خراب ہورہی تھی کہ ٹر یفک جام کی وجہ سے 10 منٹ میں پہنچنے والی ایمبولینس کو پہنچنے میں 20منٹ لگے پھر ایمبولینس مر یض کو لال بتی لیکر جاتی ہے مر یض کو ایمر جنسی میں پہنچاتے ہی ایمر جنسی ڈاکٹر چیک کرتا ہے اور پوری کو شش کے با وجود مر یض اپنی جان کی بازی ہار جاتا ہے ۔ اس ٹریفک جام کی وجہ سے کتنے ہی انسان جو اپنی جان کی بازی ہار جاتے ہیں ۔سند ھ میں ٹیفک جام ہونے کی صورت میں ہم اپنے '' پیا رے عزیزوں '' کو کھو دیتے ہیں اسی ٹریفک کے سبب جس گھر میں شادی کی خو شیوں کی دھوم دھام تھی وہا ں اب ہر آنکھ اپنے پیا رے کو کھو دینے کے غم میں نم ہے۔ '' اس کا ریشو''سال میں 10ہزار شادیاں ہوتی ہیں اسی دوران سند ھ میں ٹریفک جام ہونے کے سبب اٹیک ، حادثات ، ایکسیڈینٹ اور دیگر وجوہات کی وجہ سے 25 ہزار لوگوں کی جان چلی جاتی ہیں ''نوٹ'' سب سے پہلے گو رنمنٹ کو چاہیے کہ ٹریفک جام مسئلے کو نظر انداز نہیں کیا جائے اور گو رنمنٹ کا چاہیے کہ اس مسئلے کو جلد سے جلد حل کر وایا جائے ۔ تاکہ عوام کو مزید پر یشانی کا سامنانہ کر نا پڑے ۔ امید کرتے ہیں کہ ہماری اس درخواست پر خاص طور پر عمل فر ما کر ہمیں شکریہ ادا کرنے کا موقع فر اہم کر ینگے ۔