Showing posts with label Sarfraz Noor. Show all posts
Showing posts with label Sarfraz Noor. Show all posts

Saturday, May 2, 2020

Sarfaraz Noor Profile Urdu

BO1 is inpage's templete format, not original.
Its 1200 words, this length can only be for magazine, for newspaper we have 600 plus words
Any way its ok
further will be checked
Profile-Sarfaraz Noor-MMC50-Urdu

فخر دادو۔زاہد مہمود بھٹی
جس طرح سورج اپنی روشنی دیتے ہوئے، چھوٹا بچہ اپنی مسکراہٹ دیتے ہوئے اورپھول اپنی خوشبو بکھیرتے،چھوٹے بڑے امیر غریب کا فرق نہیں دیکھتا اسی طرح قدرت فن اور صلاحتیت بھی کسی اونچ نیچ کا فرق نہیں دیکھتی۔ایسی ہی خداداد صلاحیتیں ضلع دادو میں 20 مارچ 1988 کو پیدا ہونے والے رائیٹ آرم لیگ اسپنر زاہد مہمود میں کوٹ کوٹ بھری ہوئی ہیں۔ 

سندھ کے ویٹنام شہر دادو میں پیدا ہونے والے زاہد مہمود نے پرائمری سے ہی اپنے آنے والے ابھرتے ٹیلینٹ کو بھانپ لیا جب وہ اپنے بڑے بھائی خالد مہمود جو کہ اس وقت رائل کرکٹ کلب کی طرف سے کھیلا کرتے تھے، کرکٹ کٹس اور پیڈ وغیرہ پہن کر شوقیہ طور کرکٹ کھیلا کرتے تھے۔  ان کا یہ شوق میٹرک کلاس میں آکے پروان چڑھا جب اسے اپنی سکول کی ٹیم میں کم عمر ہونے کی وجہ سے شمولیت نہ مل سکی، یہی وہ لمحہ تھا جب زاہد مہمود نے دل میں تہیہ کر لیا کہ ایک دن وہ بھی کرکٹ کے میدان میں اپنا نام بنائینگے۔ کہتے ہیں نا جہاں چاہ وہاں راہ۔اسی چاہ کو عملی جامہ پہنانے کے لئے انہوں نے اسی رائل کلب میں شمولیت کرلی۔ اپنے بڑے بھائی سے متاثر ہونے والے زاہد نے بتایا کہ اس وقت ان کے کرکٹ میں آئیڈیل مرحوم عابد اعوان ہیں جو کہ اسی کلب کے بیٹسمین رہ چکے ہیں جن کی باقائدااسٹائلش بیٹنگ کے انداز نے انہیں بہت متاثر کیا، اس کے علاوہ کلب میں کھیلنے والے اعجاز پنہنور،رفیق لنڈ،ضفیر لغالی بھی ان کی متاثر کردہ شخصیات کی فہرست میں شامل ہیں۔ 
شام کے وقت پی سی بی گراؤنڈ میں روزانہ کی بنیاد پر اپنی پریکٹس جاری رکھتے ہوئے معصومانہ چہرے کے ساتھ پروقار،باصلاحیت شخصیت کے حامل زاہد مہمود نے بتایا کہ وہ بنیادی طور پر بیٹسمیں بننا چاہتے تھے لیکں ان کے جوہرشناس اور عقابی نظر رکھنے والے سینئرز نے ان کی انوکھیے اور منفردباؤلیگ انداز کو پرکھتے ہوئے انہیں باؤلنگ پر توجہ دینے کی تجویز دی جہ کہ آگے چل کر کارآمد ثابت ہوئی۔ سفر جاری رکھتے ہوئے زاہد مہمود نے انڈر 19 کرکٹ میچز اپنے خرچے پر دادو کی نمائندگی کرنے ضلع کوٹڑی میں کھیلنے جانا پڑتا تھا۔ اپنے کرکٹ کے جذبے کو آگے لے جانے کے لئے وہ کوٹڑی میں اپنے ماموں کے گھر رہائش پذیر ہوا کرتا تھا۔ اس کے فوری بعد جب وہ حیدرآباد ریجن میں منتخب ہوئے تو شدید بیمار ہونے کی وجہ سے اسے واپس آنا پڑا جہ کہ اس بیماری سے  زیادہ تکلیفدہ  بات دادو کے لوگوں کی طعنہ اور طنز بھری باتیں تھیں لیکن انہوں نے ہمت نہیں ہاری بلکہ دل میں طۂ کر لیا کہ کچھ بھی ہوجائے انہیں اچھی کرکٹ کھیل کر لوگوں کے منہ بند کرنے ہیں۔  
یہ بات یہاں پر واضع کرتے چلیں کہ ان دنوں ریجنل لیول پر کرکٹ کھیلنے کے لئے کسی قسم کی مناسب سہولیات میسر نیہں تھی اور نہ ہی کوئیباقائدا کوچنگ دی جاتی تھی، اس کے باوجود زاہد مہمود نے ہمت اور لگن سے اپنی منزل حاصل کر کے دادو شہر میں فخر دادو کا خطاب حاصل کیا۔ اس دور میں فرسٹ کلاس میں کرکٹ کھیلنا کسی چھوٹے ریجن کے لئے ناممکن سی بات تھی،جو کہ صرف پیرمعظم کے بیٹے پیر ذولفقار اور شاہد قمرانی جیسے اسر اسوخ رکھنے والوں کی قسمت میں دیکھی جاتی تھی۔ لیکن رواجی پڑھائی سے بیزار ہوکے زاہد نے کرکٹ کو ہی اپنا اولین مقصد بنا دیا۔ میٹرک کے بعد جب سینئر ڈسرکٹ لیول پر زاہد مہمود نے اپنی بہترین باؤلنگ کے جوہر دکھاتے ہوئے پانچ میچز میں 36کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا تب بد قسمتی سے ان کا نام لسٹ میں نہ آسکا لیکن جب ضلع دادو کو پلینگ رائیٹس ملے تب انہوں نے  پانچ میچز میں 52کھلاڑیوں کو آؤٹ کر کے پاکستان میں ایک نیا رکارڈ قائم کیا جو کہ ان کا ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوا کیونکہ یہ کامیابی  زاہد کوریجنل ٹیم انڈر23میں شمولیت کی وجہ بنی۔ اس کے یہ ریجنل کرکٹ کا سلسلا جاری  ہوتے زاہد کی  فرسٹ کلاس میں کھیلنے کے قسمت کے دروازے کھل گئے۔
ٹی ٹونٹی 2012ء کے سفر کا حوالہ دیتے ہوئے زاہد مہمود نے بتایا کہ وہ تجربہ ان کی زندگی کا بہترین تجربہ رہا، بعد ازاں سن2014ء میں لاڑکانہ کے نئے بننے والے ریجن کی نمائندگی کرتے ہوئے لگاتار دو سال تک بحیثیت کپتان اپنی کارکردگی کے جوہر دکھائے۔ اگرچہ پاکستان کپ میں زاہد کی شمولیت نہ ہو سکی تاہم لارکانہ اور حیدرآباد ریجن کے گریڈ ٹو میں جانے کے بعددو سال کے لئے اسٹیٹ بنک کی طرف سے قائداعظم ٹرافی کھیلنے کا ایک اوراچھا موقعا ملا۔سن2018ء میں پشاور ریجن میں بطور مہمان کھلاڑی کھیلے۔حالیہ وزیراعظم عمران خان کی سرپرستی میں سن 2019ء کو تشکیل دیئے جانے والے ساؤتھ پنجاب ٹیم جو چھ ٹیمز پر مشتمل ہے، زاہد مہمود کو کھیلنے کا موقع ملا۔ محنت اور نصیب پر پختہ یقین رکھنے والے زاہد مہمود کو  پی ایس ایل کی طرف سے کوئٹہ گلیڈیئٹر کی ٹیم میں کھیلنے کا موقع ملا جس کی وجہ سے انہوں نے شہرت کی وہ بلندیاں چھوئیں جس کی ہر خاص و عام صرف خواہش ہی کر سکتا ہے لیکن قسمت کی دیوی سب پر مہربان کہاں ہوتی ہے یہ تو زاہد مہمود جیسے ان تھک محنت کرنے والوں کے ہی قدم چومتی ہے۔ 
زندگی کے اتار چڑھاؤ اور نشیب و فراز میں ناکامیوں سے لڑتے معجزانہ طور پر کامیابی حاصل کرنے والے زاہد نے کرکٹ فیلڈ کے خواہشمند نوجوانوں کو پیغام دیتے ہوئے کہا کہ اس فیلڈ میں فٹنس کا بہت ذیادہ خیال رکھنا بہت ضروری ہے اور اس فیلڈ میں صبر لازمی ہے کیونکہ کوئی بھی کامیابی محنت،صبر اور رب پر بھروسہ کے نہیں ملتی۔اگر آپ کے اندر ٹیلینٹ موجود ہے تو دنیا کی کوئی بھی طاقت منزل پانے سے نہیں روک سکتی۔بغیر ٹیلینٹ اور محنت کے آسان سی چیز بھی نہیں ملتی جس طرح علامہ اقبال نے کیا خوب کہا ہے  ، بھٹک رہا ہے راہی کیوں منزل کی تلاش میں، اتنا عظیم ہو جا منزل تجھے پکارے۔ بہت کم عرصے میں سب کے دلدادہ بننے والے زاہد مہمود روازانہ گراؤنڈ میں پریکٹس اور جمنازیم میں دیگر فٹنس کی کثرت
 کرتے ہوئے شام کے ٹائم ملیں گے گویا یہ وقت ان کے کیرئرمیں آگے جانے کی ایک سیڑھی کی طرح کام کرتا ہو۔زاہد مہمود کا مزید کہنا تھا کہ آجکل کرکٹ میں شمولیت 70%فٹنس پر منحصر کرتی ہے۔
کرکٹ کے علاوہ تفریح کے لئے کبھی کبھار زاہد مہمود فلمیں دیکھنے کے لئے بھی وقت نکال لیتے ہیں۔ سلمان خان کے مداح ہونے کی وجہ سے ان کی پسندیدہ فلم دبنگ ہے جو بار بار دیکھنے سے بھی ان کا دل نہیں بھرتا۔ کھانے میں مٹن کو اپنی مرغوب غذا بتاتے ہوئے زاہد نے کہا ک ان کی احلیہ مٹن بہت عمدہ بناتی ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں زاہد نے بتایا کہ وہ مشہور کرکٹرز عمران طاہر اور راشد خان کی طرح اپنا ایک منفرد نام پیدا کرنا چاہتے ہیں۔کیریر کے یادگار لمحات کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ جب لاڑکانہ ریجن میں کھیلتے ہوئے 16رنز میں 5آؤٹ کیئے اور ساؤتھ پنجاب کی ٹیم میں 21رنز میں 4آؤٹ کیئے تو ان کی خوشی کا کوئی تھکانہ نہ رہا اور وہ لمحات آج ان کے ذہن کو کرکٹ کے میدان میں آگے بڑھنے میں حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔
معاشی صورتحال کے حوالے سے زاہد نے بتایا کہ جیسے کوئی ڈاکٹر انجنیئر اور دوسرے شعبہ کے لئے سب سے پہلے محنت اور ایک طریقہ کار سے گذرنا لازمی ہے بلکل ویسے ہی کرکٹ کے میدان میں بھی ایسے ہی عمل سے گزنا پڑتا ہے تب جاکے اپنی مستحکم پوزیشن حاصل کی جاسکتی ہے۔

Sunday, March 1, 2020

Sarfraz Noor Article Urdu MA

Revised
  SARFARAZ NOOR-M.A-Roll No.50-URDUخواجہ سرا۔حقوق اور حقیقتیں

ڈھول بجاتے،تالیوں کی گونج میں ناچتے گاتے،ہاتھ کی لکیروں سے خالی، نقلی بناوٹ اورچمکتے چہروں کے پیچھے ان گنت محرومیوں اور اداسیوں کو چھپاتے ہوئے، معاشرتی عیب، منحوس، فحش اور واحیات جیسے القاب سے نوازے  گئے خواجہ سرا ؤں کی زندگی کسی  اسرار سے کم نہیں۔ یہ پرسرار مخلوق وقت اور معاشرے کی طرف سے ہدیتا  پیش کی گئی تکلیفوں، پریشانیوں اور درد کو  غیر معیاری میک اپ سے چھپاتے ہوئے لوگوں میں حقیر سی رقم کے عوض خوشیاں بانٹتے ہیں۔ بے انتہا ت ذلیل اور دھتکار برداشت کرنے کے باوجود بھی یہ شیریں زباں رہتے ہیں اور کبھی بھی اپنے اندر کی کڑواہٹ کسی دوسرے پر نہیں انڈیلتے۔ قبل اس کے کہ ہم بات کریں  خواجہ سراؤں کی پاکستان اور ہمسائے ملک میں تعداد اور حقوق کی، اس سے پہلے نظر ڈالتے ہیں کہ آخریہ پرسرار مخلوق کون ہے، کیوں ہے اور کیسے ہے۔
تاریخ کے اوراق پلٹنے سے پتہ چلتا ہے کہ دور ماضی میں خواجہ سراؤں کو بادشاہ وقت کی طرف سے بڑی اہمیت حاصل تھی جو کہ اپنے بڑے بڑے حرم (بیویاں) کے محافظ کے طور پہ  بحیثیت دربان کام کرتے تھے، اسی وجہ سے انہیں خواجہ سرا  یعنی محل کے افسران کے نام سے محترم کرنے کی کوشش کی جاتی تھی۔ مجموعی طور پر پاکستان، بھارت اور بنگلادیش کے خطوں میں خواجہ سراؤں کی وسیع و عریض پرانی تاریخ موجود ہے۔
حالیہ مردم شماری 2017 کے مطابق پاکستان میں خواجہ سراؤں کی تعداد قریب دس ہزار رکارڈ کی گئی، بھارتی سروے ۱۱۰۲ء کے دوران خواجہ سراؤں کی تعداد چار لاکھ سے اوپر بتائی گئی،جبکہ بنگلادیشی  سوشل ویلفیئر منسٹری کے مطابق 2013 میں دس ہزار سے زائد رجسٹرڈ خواجہ سراؤں کی لسٹ پیش کی گئی۔ حال ہی میں تینوں ملکوں کی این جی اوز اور حکومت کے ما بین تعاون سے پہلی بار خواجہ سراؤں کے حقوق پر بات کی گئی،جن میں پاکستان،بھارت اور بنگلادیش میں مقیم خواجہ سراؤں کو اپنی بنیادی شناخت بحیثیت ٹرانس جینڈر کمیونٹی، سرکاری نوکری میں کوٹا، عوام کی طرف سے حراساں کئے جانے پر آواز اٹھانے کا حق اور وراثت میں حصیداری کے حقوق قابل غور رہے۔ ساتھ ساتھ قومی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ میں ان کی شناخت کے لئے "X" اور"E"  جینڈر کے آپشن کا اضافہ کیا گیا جس کے تحت خواجہ سرا نہ صرف ووٹ کے اندراج ک لئے قابل اطلاق ہونگے بلکہ مسلمان خواجہ سراؤں کے لئے حج و عمرہ کی سعادت حاصل کرنے کے دروازے بھی کھول دیئے گئے۔
سن 2018میں پاکستان کو خواجہ سراؤں کی شناخت تسلیم کرنے والا ایک ممتاز ملک مانا گیا، جس کی بڑی مثال انسانی حقوق کی وفاقی وزیر شیرین مزاری کا خواجہ سرا عائشہ مغل کو اپنے محکمے میں نوکری پر تعینات کرنا ہے۔پاکستان میں خواجہ سراؤں کی الگ شناخت کی ایک اور مثال لاہور کے نجی ٹی وی چینل کوہنور میں کام کرنے والی پہلی خواجہ سرا نیوز اینکر مارویہ ملک ہیں۔ لاہور میں سن 2017 میں قائم ہونے والا پہلا جینڈرگارڈین اسکول خواجا سراؤں کو تعلیمی حقوق دینے کے سلسلے میں پہلا عملی قدم ہے،مستقبل قریب میں کراچی،اسلام آباد اور دیگر شہروں میں بھی ایسے اسکول قائم ہونا متوقع ہے۔
پاکستان میں جہاں زیادہ تر خواجہ سرا اپنا پیٹ پالنے کے لئے ناچ گانے اور جسم فروشی کے کاروبار کا سہارا لیتے ہیں، وہیں کچھ خواجہ سراؤں نے اپنے ٹولوں سے بغاوت کر کے چھوٹی موٹی نوکری اور کاروبار جن میں بیوٹی پارلر، درزی کا کام، دودھ بیچنا، باورچی اور ڈرائیونگ کر کے خود کو معاشرے میں محترم کیا ہے۔
حالانکہ تینون ملکوں کی حکومت اور نجی اداروں کے تعاون سے خواجہ سراؤں کی تیسری صنف کی شناخت اور دیگر حقوق اور بہتری کے لئے موثر اقدامات کئے گئے ہیں، تاہم آج بھی زیادہ تر خواجہ سرا غربت اور مفلسی کی زندگی بسر کرتے ہوئے،شام ڈھلے پنکی،جولی،سجنی،چاہت،ڈولی اور ببلی جیسی نقلی شناخت لیئے سڑکوں پر بھیک مانگتے اور معاشرے کی دھتکار برداشت کرتے نظر آئینگے۔محبت اور رشتوں سے نا آشنا یہ مخلوق معاشرے کی طرف سے دیئے گئے فحش،لوفر،بد معاش اور انسانیت پر داغ جیسے القاب کو اپنے سینے میں دفن کر کے لوگوں کو صرف دعائیں دیتے ملیں گے۔




Subject line and file name are not proper. however it is posted.
Next time take care.
Proofing mistakes
figures have been changed in conversion write figures in English

  SARFARAZ NOOR-M.A-Roll No.50-URDU
خواجہ سرا۔ان دیکھے راز
Headline does not match with the content 
ڈھول بجاتے،تالیوں کی گونج میں ناچتے گاتے،ہاتھ کی لکیروں سے خالی، نقلی بناوٹ اورچمکتے چہروں کے پیچھے ان گنت محرومیوں اور اداسیوں کو چھپاتے ہوئے، معاشرتی عیب، منحوس، فحش اور واحیات جیسے القاب سے نوازے  گئے خواجہ سرا وئں کی زندگی کسی  اسرار سے کم نہیں۔ یہ پرسرار مخلوق وقت اور معاشرے کی طرف سے ہدیتا  پیش کی گئی تکلیفوں، پریشانیوں اور درد کو  غیر معیاری میک اپ سے چھپاتے ہوئے لوگوں میں حقیر سی رقم کے عوض خوشیاں بانٹتے ہیں۔ بے انتہا ت زلیل اور دھتکار برداشت کرنے کے باوجود بھی یہ شیریں زباں رہتے ہیں اور کبھی بھی اپنے اندر کی کڑواہٹ کسی دوسرے پر نہیں انڈیلتے۔ قبل اس کے کہ ہم بات کریں  خواجہ سراؤں کی پاکستان اور ہمسائے ملک میں تعداد اور حقوق کی، اس سے پہلے نظر ڈالتے ہیں کہ آخریہ پرسرار مخلوق کون ہے، کیوں ہے اور کیسے ہے۔
تاریخ کے اوراق پلٹنے سے پتہ چلتا ہے کہ دور ماضی میں خواجہ سراؤں کو بادشاہ وقت کی طرف سے بڑی اہمیت حاصل تھی جو کہ اپنے بڑے بڑے حرم (بیویاں) کے محافظ کے طور پہ  بحیثیت دربان کام کرتے تھے، اسی وجہ سے انہیں خواجہ سرا  یعنی محل کے افسران کے نام سے محترم کرنے کی کوشش کی جاتی تھی۔ مجموعی طور پر پاکستان، بھارت اور بنگلادیش کے خطوں میں خواجہ سراؤں کی وسیع و عریض پرانی تاریخ موجود ہے۔
حالیہ مردم شماری ۷۱۰۲ء کے مطابق پاکستان میں خواجہ سراؤں کی تعداد قریب دس ہزار رکارڈ کی گئی، بھارتی سروے ۱۱۰۲ء کے دوران خواجہ سراؤں کی تعداد چار لاکھ سے اوپر بتائی گئی،جبکہ بنگلادیشی  سوشل ویلفیئر منسٹری کے مطابق ۳۱۰۲ء میں دس ہزار سے زائد رجسٹرڈ خواجہ سراؤں کی لسٹ پیش کی گئی۔ حال ہی میں تینوں ملکوں کی این جی اوز اور حکومت کے ما بین تعاون سے پہلی بار خواجہ سراؤں کے حقوق پر بات کی گئی،جن میں پاکستان،بھارت اور بنگلادیش میں مقیم خواجہ سراؤں کو اپنی بنیادی شناخت بحیثیت ٹرانس جینڈر کمیونٹی، سرکاری نوکری میں کوٹا، عوام کی طرف سے حراساں کئے جانے پر آواز اٹھانے کا حق اور وراثت میں حصیداری کے حقوق قابل غور رہے۔ ساتھ ساتھ قومی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ میں ان کی شناخت کے لئے "X" اور"E"  جینڈر کے آپشن کا اضافہ کیا گیا جس کے تحت خواجہ سرا نہ صرف ووٹ کے اندراج ک لئے قابل اطلاق ہونگے بلکہ مسلمان خواجہ سراؤں کے لئے حج و عمرہ کی سعادت حاصل کرنے کے دروازے بھی کھول دیئے گئے۔
Check following para, I think its not so
سن ۸۱۰۲ء میں پاکستان کو خواجہ سراؤں کی شناخت تسلیم کرنے والا ایک ممتاز ملک مانا گیا، جس کی بڑی مثال انسانی حقوق کی وفاقی وزیر شیرین مزاری کا خواجہ سرا عائشہ مغل کو اپنے محکمے میں نوکری پر تعینات کرنا ہے۔پاکستان میں خواجہ سراؤں کی الگ شناخت کی ایک اور مثال لاہور کے نجی ٹی وی چینل کوہنور میں کام کرنے والی پہلی خواجہ سرا نیوز اینکر مارویہ ملک ہیں۔ لاہور میں سن ۷۱۰۲ء میں قائم ہونے والا پہلا جینڈرگارڈین اسکول خواجا سراؤں کو تعلیمی حقوق دینے کے سلسلے میں پہلا عملی قدم ہے،مستقبل قریب میں کراچی،اسلام آباد اور دیگر شہروں میں بھی ایسے اسکول قائم ہونا متوقع ہے۔
پاکستان میں جہاں زیادہ تر خواجہ سرا اپنا پیٹ پانے کے لئے ناچ گانے اور جسم فروشی کے کاروبار کا سہارا لیتے ہیں، وہیں کچھ خواجہ سراؤں نے اپنے ٹولوں سے بغاوت کر کے چھوٹی موٹی نوکری اور کاروبار جن میں بیوٹی پارلر، درزی کا کام، دودھ بیچنا، باورچی اور ڈراونگ کر کے خود کو معاشرے میں محترم کیا ہے۔
ھالانکہ تینون ملکوں  کی حکومت اور نجی اداروں کے تعاون سے خواجہ سراؤں کی تیسری صنف کی شناخت اور دیگر حقوق اور بہتری کے لئے موثر اقدامات کئے گئے ہیں، تاہم آج بھی زیادہ تر خواجہ سرا غربت اور مفلسی کی زندگی بسر کرتے ہوئے،شام ڈھلے پنکی،جولی،سجنی،چاہت،ڈولی اور ببلی جیسی نقلی شناخت لیئے سڑکوں پر بھیک مانگتے اور معاشرے کی دھتکار برداشت کرتے نظر آئینگے۔محبت اور رشتوں سے نا آشنا یہ مخلوق معاشرے کی طرف سے دیئے گئے فحش،لوفر،بد معاش اور انسانیت پر داغ جیسے القاب کو اپنے سینے میں دفن کر کے لوگوں کو صرف دعائیں دیتے ملیں گے۔