BO1 is inpage's templete format, not original.
Its 1200 words, this length can only be for magazine, for newspaper we have 600 plus words
Any way its ok
further will be checked
Profile-Sarfaraz Noor-MMC50-Urdu
فخر دادو۔زاہد مہمود بھٹی
جس طرح سورج اپنی روشنی دیتے ہوئے، چھوٹا بچہ اپنی مسکراہٹ دیتے ہوئے اورپھول اپنی خوشبو بکھیرتے،چھوٹے بڑے امیر غریب کا فرق نہیں دیکھتا اسی طرح قدرت فن اور صلاحتیت بھی کسی اونچ نیچ کا فرق نہیں دیکھتی۔ایسی ہی خداداد صلاحیتیں ضلع دادو میں 20 مارچ 1988 کو پیدا ہونے والے رائیٹ آرم لیگ اسپنر زاہد مہمود میں کوٹ کوٹ بھری ہوئی ہیں۔
سندھ کے ویٹنام شہر دادو میں پیدا ہونے والے زاہد مہمود نے پرائمری سے ہی اپنے آنے والے ابھرتے ٹیلینٹ کو بھانپ لیا جب وہ اپنے بڑے بھائی خالد مہمود جو کہ اس وقت رائل کرکٹ کلب کی طرف سے کھیلا کرتے تھے، کرکٹ کٹس اور پیڈ وغیرہ پہن کر شوقیہ طور کرکٹ کھیلا کرتے تھے۔ ان کا یہ شوق میٹرک کلاس میں آکے پروان چڑھا جب اسے اپنی سکول کی ٹیم میں کم عمر ہونے کی وجہ سے شمولیت نہ مل سکی، یہی وہ لمحہ تھا جب زاہد مہمود نے دل میں تہیہ کر لیا کہ ایک دن وہ بھی کرکٹ کے میدان میں اپنا نام بنائینگے۔ کہتے ہیں نا جہاں چاہ وہاں راہ۔اسی چاہ کو عملی جامہ پہنانے کے لئے انہوں نے اسی رائل کلب میں شمولیت کرلی۔ اپنے بڑے بھائی سے متاثر ہونے والے زاہد نے بتایا کہ اس وقت ان کے کرکٹ میں آئیڈیل مرحوم عابد اعوان ہیں جو کہ اسی کلب کے بیٹسمین رہ چکے ہیں جن کی باقائدااسٹائلش بیٹنگ کے انداز نے انہیں بہت متاثر کیا، اس کے علاوہ کلب میں کھیلنے والے اعجاز پنہنور،رفیق لنڈ،ضفیر لغالی بھی ان کی متاثر کردہ شخصیات کی فہرست میں شامل ہیں۔
شام کے وقت پی سی بی گراؤنڈ میں روزانہ کی بنیاد پر اپنی پریکٹس جاری رکھتے ہوئے معصومانہ چہرے کے ساتھ پروقار،باصلاحیت شخصیت کے حامل زاہد مہمود نے بتایا کہ وہ بنیادی طور پر بیٹسمیں بننا چاہتے تھے لیکں ان کے جوہرشناس اور عقابی نظر رکھنے والے سینئرز نے ان کی انوکھیے اور منفردباؤلیگ انداز کو پرکھتے ہوئے انہیں باؤلنگ پر توجہ دینے کی تجویز دی جہ کہ آگے چل کر کارآمد ثابت ہوئی۔ سفر جاری رکھتے ہوئے زاہد مہمود نے انڈر 19 کرکٹ میچز اپنے خرچے پر دادو کی نمائندگی کرنے ضلع کوٹڑی میں کھیلنے جانا پڑتا تھا۔ اپنے کرکٹ کے جذبے کو آگے لے جانے کے لئے وہ کوٹڑی میں اپنے ماموں کے گھر رہائش پذیر ہوا کرتا تھا۔ اس کے فوری بعد جب وہ حیدرآباد ریجن میں منتخب ہوئے تو شدید بیمار ہونے کی وجہ سے اسے واپس آنا پڑا جہ کہ اس بیماری سے زیادہ تکلیفدہ بات دادو کے لوگوں کی طعنہ اور طنز بھری باتیں تھیں لیکن انہوں نے ہمت نہیں ہاری بلکہ دل میں طۂ کر لیا کہ کچھ بھی ہوجائے انہیں اچھی کرکٹ کھیل کر لوگوں کے منہ بند کرنے ہیں۔
یہ بات یہاں پر واضع کرتے چلیں کہ ان دنوں ریجنل لیول پر کرکٹ کھیلنے کے لئے کسی قسم کی مناسب سہولیات میسر نیہں تھی اور نہ ہی کوئیباقائدا کوچنگ دی جاتی تھی، اس کے باوجود زاہد مہمود نے ہمت اور لگن سے اپنی منزل حاصل کر کے دادو شہر میں فخر دادو کا خطاب حاصل کیا۔ اس دور میں فرسٹ کلاس میں کرکٹ کھیلنا کسی چھوٹے ریجن کے لئے ناممکن سی بات تھی،جو کہ صرف پیرمعظم کے بیٹے پیر ذولفقار اور شاہد قمرانی جیسے اسر اسوخ رکھنے والوں کی قسمت میں دیکھی جاتی تھی۔ لیکن رواجی پڑھائی سے بیزار ہوکے زاہد نے کرکٹ کو ہی اپنا اولین مقصد بنا دیا۔ میٹرک کے بعد جب سینئر ڈسرکٹ لیول پر زاہد مہمود نے اپنی بہترین باؤلنگ کے جوہر دکھاتے ہوئے پانچ میچز میں 36کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا تب بد قسمتی سے ان کا نام لسٹ میں نہ آسکا لیکن جب ضلع دادو کو پلینگ رائیٹس ملے تب انہوں نے پانچ میچز میں 52کھلاڑیوں کو آؤٹ کر کے پاکستان میں ایک نیا رکارڈ قائم کیا جو کہ ان کا ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوا کیونکہ یہ کامیابی زاہد کوریجنل ٹیم انڈر23میں شمولیت کی وجہ بنی۔ اس کے یہ ریجنل کرکٹ کا سلسلا جاری ہوتے زاہد کی فرسٹ کلاس میں کھیلنے کے قسمت کے دروازے کھل گئے۔
ٹی ٹونٹی 2012ء کے سفر کا حوالہ دیتے ہوئے زاہد مہمود نے بتایا کہ وہ تجربہ ان کی زندگی کا بہترین تجربہ رہا، بعد ازاں سن2014ء میں لاڑکانہ کے نئے بننے والے ریجن کی نمائندگی کرتے ہوئے لگاتار دو سال تک بحیثیت کپتان اپنی کارکردگی کے جوہر دکھائے۔ اگرچہ پاکستان کپ میں زاہد کی شمولیت نہ ہو سکی تاہم لارکانہ اور حیدرآباد ریجن کے گریڈ ٹو میں جانے کے بعددو سال کے لئے اسٹیٹ بنک کی طرف سے قائداعظم ٹرافی کھیلنے کا ایک اوراچھا موقعا ملا۔سن2018ء میں پشاور ریجن میں بطور مہمان کھلاڑی کھیلے۔حالیہ وزیراعظم عمران خان کی سرپرستی میں سن 2019ء کو تشکیل دیئے جانے والے ساؤتھ پنجاب ٹیم جو چھ ٹیمز پر مشتمل ہے، زاہد مہمود کو کھیلنے کا موقع ملا۔ محنت اور نصیب پر پختہ یقین رکھنے والے زاہد مہمود کو پی ایس ایل کی طرف سے کوئٹہ گلیڈیئٹر کی ٹیم میں کھیلنے کا موقع ملا جس کی وجہ سے انہوں نے شہرت کی وہ بلندیاں چھوئیں جس کی ہر خاص و عام صرف خواہش ہی کر سکتا ہے لیکن قسمت کی دیوی سب پر مہربان کہاں ہوتی ہے یہ تو زاہد مہمود جیسے ان تھک محنت کرنے والوں کے ہی قدم چومتی ہے۔
زندگی کے اتار چڑھاؤ اور نشیب و فراز میں ناکامیوں سے لڑتے معجزانہ طور پر کامیابی حاصل کرنے والے زاہد نے کرکٹ فیلڈ کے خواہشمند نوجوانوں کو پیغام دیتے ہوئے کہا کہ اس فیلڈ میں فٹنس کا بہت ذیادہ خیال رکھنا بہت ضروری ہے اور اس فیلڈ میں صبر لازمی ہے کیونکہ کوئی بھی کامیابی محنت،صبر اور رب پر بھروسہ کے نہیں ملتی۔اگر آپ کے اندر ٹیلینٹ موجود ہے تو دنیا کی کوئی بھی طاقت منزل پانے سے نہیں روک سکتی۔بغیر ٹیلینٹ اور محنت کے آسان سی چیز بھی نہیں ملتی جس طرح علامہ اقبال نے کیا خوب کہا ہے ، بھٹک رہا ہے راہی کیوں منزل کی تلاش میں، اتنا عظیم ہو جا منزل تجھے پکارے۔ بہت کم عرصے میں سب کے دلدادہ بننے والے زاہد مہمود روازانہ گراؤنڈ میں پریکٹس اور جمنازیم میں دیگر فٹنس کی کثرت
کرتے ہوئے شام کے ٹائم ملیں گے گویا یہ وقت ان کے کیرئرمیں آگے جانے کی ایک سیڑھی کی طرح کام کرتا ہو۔زاہد مہمود کا مزید کہنا تھا کہ آجکل کرکٹ میں شمولیت 70%فٹنس پر منحصر کرتی ہے۔
کرکٹ کے علاوہ تفریح کے لئے کبھی کبھار زاہد مہمود فلمیں دیکھنے کے لئے بھی وقت نکال لیتے ہیں۔ سلمان خان کے مداح ہونے کی وجہ سے ان کی پسندیدہ فلم دبنگ ہے جو بار بار دیکھنے سے بھی ان کا دل نہیں بھرتا۔ کھانے میں مٹن کو اپنی مرغوب غذا بتاتے ہوئے زاہد نے کہا ک ان کی احلیہ مٹن بہت عمدہ بناتی ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں زاہد نے بتایا کہ وہ مشہور کرکٹرز عمران طاہر اور راشد خان کی طرح اپنا ایک منفرد نام پیدا کرنا چاہتے ہیں۔کیریر کے یادگار لمحات کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ جب لاڑکانہ ریجن میں کھیلتے ہوئے 16رنز میں 5آؤٹ کیئے اور ساؤتھ پنجاب کی ٹیم میں 21رنز میں 4آؤٹ کیئے تو ان کی خوشی کا کوئی تھکانہ نہ رہا اور وہ لمحات آج ان کے ذہن کو کرکٹ کے میدان میں آگے بڑھنے میں حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔
معاشی صورتحال کے حوالے سے زاہد نے بتایا کہ جیسے کوئی ڈاکٹر انجنیئر اور دوسرے شعبہ کے لئے سب سے پہلے محنت اور ایک طریقہ کار سے گذرنا لازمی ہے بلکل ویسے ہی کرکٹ کے میدان میں بھی ایسے ہی عمل سے گزنا پڑتا ہے تب جاکے اپنی مستحکم پوزیشن حاصل کی جاسکتی ہے۔
No comments:
Post a Comment