SARFARAZ NOOR-M.A-Roll No.50-URDUخواجہ سرا۔حقوق اور حقیقتیں
ڈھول بجاتے،تالیوں کی گونج میں ناچتے گاتے،ہاتھ کی لکیروں سے خالی، نقلی بناوٹ اورچمکتے چہروں کے پیچھے ان گنت محرومیوں اور اداسیوں کو چھپاتے ہوئے، معاشرتی عیب، منحوس، فحش اور واحیات جیسے القاب سے نوازے گئے خواجہ سرا ؤں کی زندگی کسی اسرار سے کم نہیں۔ یہ پرسرار مخلوق وقت اور معاشرے کی طرف سے ہدیتا پیش کی گئی تکلیفوں، پریشانیوں اور درد کو غیر معیاری میک اپ سے چھپاتے ہوئے لوگوں میں حقیر سی رقم کے عوض خوشیاں بانٹتے ہیں۔ بے انتہا ت ذلیل اور دھتکار برداشت کرنے کے باوجود بھی یہ شیریں زباں رہتے ہیں اور کبھی بھی اپنے اندر کی کڑواہٹ کسی دوسرے پر نہیں انڈیلتے۔ قبل اس کے کہ ہم بات کریں خواجہ سراؤں کی پاکستان اور ہمسائے ملک میں تعداد اور حقوق کی، اس سے پہلے نظر ڈالتے ہیں کہ آخریہ پرسرار مخلوق کون ہے، کیوں ہے اور کیسے ہے۔
تاریخ کے اوراق پلٹنے سے پتہ چلتا ہے کہ دور ماضی میں خواجہ سراؤں کو بادشاہ وقت کی طرف سے بڑی اہمیت حاصل تھی جو کہ اپنے بڑے بڑے حرم (بیویاں) کے محافظ کے طور پہ بحیثیت دربان کام کرتے تھے، اسی وجہ سے انہیں خواجہ سرا یعنی محل کے افسران کے نام سے محترم کرنے کی کوشش کی جاتی تھی۔ مجموعی طور پر پاکستان، بھارت اور بنگلادیش کے خطوں میں خواجہ سراؤں کی وسیع و عریض پرانی تاریخ موجود ہے۔
حالیہ مردم شماری 2017 کے مطابق پاکستان میں خواجہ سراؤں کی تعداد قریب دس ہزار رکارڈ کی گئی، بھارتی سروے ۱۱۰۲ء کے دوران خواجہ سراؤں کی تعداد چار لاکھ سے اوپر بتائی گئی،جبکہ بنگلادیشی سوشل ویلفیئر منسٹری کے مطابق 2013 میں دس ہزار سے زائد رجسٹرڈ خواجہ سراؤں کی لسٹ پیش کی گئی۔ حال ہی میں تینوں ملکوں کی این جی اوز اور حکومت کے ما بین تعاون سے پہلی بار خواجہ سراؤں کے حقوق پر بات کی گئی،جن میں پاکستان،بھارت اور بنگلادیش میں مقیم خواجہ سراؤں کو اپنی بنیادی شناخت بحیثیت ٹرانس جینڈر کمیونٹی، سرکاری نوکری میں کوٹا، عوام کی طرف سے حراساں کئے جانے پر آواز اٹھانے کا حق اور وراثت میں حصیداری کے حقوق قابل غور رہے۔ ساتھ ساتھ قومی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ میں ان کی شناخت کے لئے "X" اور"E" جینڈر کے آپشن کا اضافہ کیا گیا جس کے تحت خواجہ سرا نہ صرف ووٹ کے اندراج ک لئے قابل اطلاق ہونگے بلکہ مسلمان خواجہ سراؤں کے لئے حج و عمرہ کی سعادت حاصل کرنے کے دروازے بھی کھول دیئے گئے۔
سن 2018میں پاکستان کو خواجہ سراؤں کی شناخت تسلیم کرنے والا ایک ممتاز ملک مانا گیا، جس کی بڑی مثال انسانی حقوق کی وفاقی وزیر شیرین مزاری کا خواجہ سرا عائشہ مغل کو اپنے محکمے میں نوکری پر تعینات کرنا ہے۔پاکستان میں خواجہ سراؤں کی الگ شناخت کی ایک اور مثال لاہور کے نجی ٹی وی چینل کوہنور میں کام کرنے والی پہلی خواجہ سرا نیوز اینکر مارویہ ملک ہیں۔ لاہور میں سن 2017 میں قائم ہونے والا پہلا جینڈرگارڈین اسکول خواجا سراؤں کو تعلیمی حقوق دینے کے سلسلے میں پہلا عملی قدم ہے،مستقبل قریب میں کراچی،اسلام آباد اور دیگر شہروں میں بھی ایسے اسکول قائم ہونا متوقع ہے۔
پاکستان میں جہاں زیادہ تر خواجہ سرا اپنا پیٹ پالنے کے لئے ناچ گانے اور جسم فروشی کے کاروبار کا سہارا لیتے ہیں، وہیں کچھ خواجہ سراؤں نے اپنے ٹولوں سے بغاوت کر کے چھوٹی موٹی نوکری اور کاروبار جن میں بیوٹی پارلر، درزی کا کام، دودھ بیچنا، باورچی اور ڈرائیونگ کر کے خود کو معاشرے میں محترم کیا ہے۔
حالانکہ تینون ملکوں کی حکومت اور نجی اداروں کے تعاون سے خواجہ سراؤں کی تیسری صنف کی شناخت اور دیگر حقوق اور بہتری کے لئے موثر اقدامات کئے گئے ہیں، تاہم آج بھی زیادہ تر خواجہ سرا غربت اور مفلسی کی زندگی بسر کرتے ہوئے،شام ڈھلے پنکی،جولی،سجنی،چاہت،ڈولی اور ببلی جیسی نقلی شناخت لیئے سڑکوں پر بھیک مانگتے اور معاشرے کی دھتکار برداشت کرتے نظر آئینگے۔محبت اور رشتوں سے نا آشنا یہ مخلوق معاشرے کی طرف سے دیئے گئے فحش،لوفر،بد معاش اور انسانیت پر داغ جیسے القاب کو اپنے سینے میں دفن کر کے لوگوں کو صرف دعائیں دیتے ملیں گے۔
Subject line and file name are not proper. however it is posted.
Next time take care.
Proofing mistakes
figures have been changed in conversion write figures in English
SARFARAZ NOOR-M.A-Roll No.50-URDU
خواجہ سرا۔ان دیکھے راز
Headline does not match with the content
ڈھول بجاتے،تالیوں کی گونج میں ناچتے گاتے،ہاتھ کی لکیروں سے خالی، نقلی بناوٹ اورچمکتے چہروں کے پیچھے ان گنت محرومیوں اور اداسیوں کو چھپاتے ہوئے، معاشرتی عیب، منحوس، فحش اور واحیات جیسے القاب سے نوازے گئے خواجہ سرا وئں کی زندگی کسی اسرار سے کم نہیں۔ یہ پرسرار مخلوق وقت اور معاشرے کی طرف سے ہدیتا پیش کی گئی تکلیفوں، پریشانیوں اور درد کو غیر معیاری میک اپ سے چھپاتے ہوئے لوگوں میں حقیر سی رقم کے عوض خوشیاں بانٹتے ہیں۔ بے انتہا ت زلیل اور دھتکار برداشت کرنے کے باوجود بھی یہ شیریں زباں رہتے ہیں اور کبھی بھی اپنے اندر کی کڑواہٹ کسی دوسرے پر نہیں انڈیلتے۔ قبل اس کے کہ ہم بات کریں خواجہ سراؤں کی پاکستان اور ہمسائے ملک میں تعداد اور حقوق کی، اس سے پہلے نظر ڈالتے ہیں کہ آخریہ پرسرار مخلوق کون ہے، کیوں ہے اور کیسے ہے۔
تاریخ کے اوراق پلٹنے سے پتہ چلتا ہے کہ دور ماضی میں خواجہ سراؤں کو بادشاہ وقت کی طرف سے بڑی اہمیت حاصل تھی جو کہ اپنے بڑے بڑے حرم (بیویاں) کے محافظ کے طور پہ بحیثیت دربان کام کرتے تھے، اسی وجہ سے انہیں خواجہ سرا یعنی محل کے افسران کے نام سے محترم کرنے کی کوشش کی جاتی تھی۔ مجموعی طور پر پاکستان، بھارت اور بنگلادیش کے خطوں میں خواجہ سراؤں کی وسیع و عریض پرانی تاریخ موجود ہے۔
حالیہ مردم شماری ۷۱۰۲ء کے مطابق پاکستان میں خواجہ سراؤں کی تعداد قریب دس ہزار رکارڈ کی گئی، بھارتی سروے ۱۱۰۲ء کے دوران خواجہ سراؤں کی تعداد چار لاکھ سے اوپر بتائی گئی،جبکہ بنگلادیشی سوشل ویلفیئر منسٹری کے مطابق ۳۱۰۲ء میں دس ہزار سے زائد رجسٹرڈ خواجہ سراؤں کی لسٹ پیش کی گئی۔ حال ہی میں تینوں ملکوں کی این جی اوز اور حکومت کے ما بین تعاون سے پہلی بار خواجہ سراؤں کے حقوق پر بات کی گئی،جن میں پاکستان،بھارت اور بنگلادیش میں مقیم خواجہ سراؤں کو اپنی بنیادی شناخت بحیثیت ٹرانس جینڈر کمیونٹی، سرکاری نوکری میں کوٹا، عوام کی طرف سے حراساں کئے جانے پر آواز اٹھانے کا حق اور وراثت میں حصیداری کے حقوق قابل غور رہے۔ ساتھ ساتھ قومی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ میں ان کی شناخت کے لئے "X" اور"E" جینڈر کے آپشن کا اضافہ کیا گیا جس کے تحت خواجہ سرا نہ صرف ووٹ کے اندراج ک لئے قابل اطلاق ہونگے بلکہ مسلمان خواجہ سراؤں کے لئے حج و عمرہ کی سعادت حاصل کرنے کے دروازے بھی کھول دیئے گئے۔
Check following para, I think its not so
سن ۸۱۰۲ء میں پاکستان کو خواجہ سراؤں کی شناخت تسلیم کرنے والا ایک ممتاز ملک مانا گیا، جس کی بڑی مثال انسانی حقوق کی وفاقی وزیر شیرین مزاری کا خواجہ سرا عائشہ مغل کو اپنے محکمے میں نوکری پر تعینات کرنا ہے۔پاکستان میں خواجہ سراؤں کی الگ شناخت کی ایک اور مثال لاہور کے نجی ٹی وی چینل کوہنور میں کام کرنے والی پہلی خواجہ سرا نیوز اینکر مارویہ ملک ہیں۔ لاہور میں سن ۷۱۰۲ء میں قائم ہونے والا پہلا جینڈرگارڈین اسکول خواجا سراؤں کو تعلیمی حقوق دینے کے سلسلے میں پہلا عملی قدم ہے،مستقبل قریب میں کراچی،اسلام آباد اور دیگر شہروں میں بھی ایسے اسکول قائم ہونا متوقع ہے۔
پاکستان میں جہاں زیادہ تر خواجہ سرا اپنا پیٹ پانے کے لئے ناچ گانے اور جسم فروشی کے کاروبار کا سہارا لیتے ہیں، وہیں کچھ خواجہ سراؤں نے اپنے ٹولوں سے بغاوت کر کے چھوٹی موٹی نوکری اور کاروبار جن میں بیوٹی پارلر، درزی کا کام، دودھ بیچنا، باورچی اور ڈراونگ کر کے خود کو معاشرے میں محترم کیا ہے۔
ھالانکہ تینون ملکوں کی حکومت اور نجی اداروں کے تعاون سے خواجہ سراؤں کی تیسری صنف کی شناخت اور دیگر حقوق اور بہتری کے لئے موثر اقدامات کئے گئے ہیں، تاہم آج بھی زیادہ تر خواجہ سرا غربت اور مفلسی کی زندگی بسر کرتے ہوئے،شام ڈھلے پنکی،جولی،سجنی،چاہت،ڈولی اور ببلی جیسی نقلی شناخت لیئے سڑکوں پر بھیک مانگتے اور معاشرے کی دھتکار برداشت کرتے نظر آئینگے۔محبت اور رشتوں سے نا آشنا یہ مخلوق معاشرے کی طرف سے دیئے گئے فحش،لوفر،بد معاش اور انسانیت پر داغ جیسے القاب کو اپنے سینے میں دفن کر کے لوگوں کو صرف دعائیں دیتے ملیں گے۔
No comments:
Post a Comment