Showing posts with label Qirat Shakeel. Show all posts
Showing posts with label Qirat Shakeel. Show all posts

Tuesday, May 5, 2020

Qirat khan Profile Urdu

Writer's name in medium is missing
Revisit first para , how it is different, no mention, should have qualified this sentence 
Mind spelling like  واکیل 
Do not pu inverted comma to proper noun / names 
Do not use صاحب, its not appreciated in print media, at the most at one place 
U wrote  بہت سی روکاوٹوں , describe 
What other people say? 
its too long 1700 words 
Decide which  name u want to adapt: Qirat Khan, Qirat Shakeel, Qirat M. Shakeel. 



Qirat khan
2k20/MMC/42
Profile
Urdu 
MA previous    
   
          " محمد اویس شیخ" 

ویسے تو حیدرآباد میں بہت سے واکیل ہیں لیکن محمد اویس شیخ جیسے نامی گرامی واکیل اپنی مثال آپ ہیں 

پاکستان میں رہنے والے محمد اویس شیخ کا تعلق حیدرآباد کے شہر ریشم بزار سے ہے محمد اویس شیخ بتاتے ہیں کہ میں کم عمر میں ہی ہائی کورٹ کا واکیل بن گیا تھا اس مقام پہ میں اپنی محنت، لگن،جدوجہد اور اپنے والد صاحب کی وجہ سے اج لوگوں کی نظر میں قابل عزت و احترام ہوں میرے والد صاحب جن کی وجہ سے میں اج اس مقام پہ ہوں چند ماہ پہلے ہی رضائے الہی سے انتقال کر گئے

واکیل صاحب کہتے ہیں میرے خاندان میں کوئی تعلیم یافتہ نہیں تھا مجھے بچپن سے ہی واکیل بننے کا شوق تھا لیکن گھر کے حالات اور اخراجات کی وجہ سے میں مایوس ہوجاتا تھا کیونکہ مجھے لگتا تھا تعلیم صرف پیسے والے لوگ ہی حاصل کر سکتے ہیں دل کہتا تھا دنیا خرید لوں جیب کہتی تھی بکواس نہ کر لیکن انسان اپنی محنت اور کوششں سے نہ ممکن کو بھی ممکن میں بدل سکتا ہے اگر ارادے پختہ اور مقصد کو پورا کرنے کا جوش و ولولہ ہو تو 

مقبولیت،شہرت اور واکیل بننے کا اس حد تک شوق تھا کہ بچپن کے کھیلنے کودنے کے دنوں میں ہی واکیل صاحب اپنے والد کے دوست "غلام مرتضٰی" کے ساتھ کورٹ جایا کرتے تھے

میں نے واکیل صاحب سے پوچھا آپ اس شعبے میں کیسے آئے 
واکیل صاحب بتاتے ہیں کہ میں اس شعبے میں حادثاتی طور پہ آیا تھا میرا خاندان سائیکل کے کاروبار سے وابستہ تھا میرے والد صاحب کو سائیکل مارکیٹ کے چند افراد نے پریشان کیا ہوا تھا جس سے میرے والد صاحب نے ان سے تنگ اکر ان کے خلاف کورٹ میں کیس داخل کر دیا لیکن میرے والد کے پاس اس وقت کیس لڑنے کے لییاور واکیل کرنے کیلئے پیسے نہیں تھے تو انھوں نے مجھ سے درخواست لکھوا کر کورٹ میں جمع کروائی کیونکہ میری رائٹنگ کو میرے والد صاحب کے دوست غلام مرتضٰی جو کہ خود بھی ایک واکیل تھے انھوں نے بہت پسند کیا اور انھوں نے خواہش ظاہر کی کہ وہ مجھے کورٹ ہی کام کرنے کے لیے چھوڑ دیں بعد ازیں میرے والد صاحب کورٹ سے کیس بھی جیت گئے اور والد صاحب نے معاف بھی کر دیا اس دن سے اب تک میں کورٹ سے وابسطہ ہوگیا 

واکیل صاحب کا خواب تھا کہ وہ قائداعظم کی طرح وکالت کریں قائدعظم ان کے آئیڈیل شخصیت ہیں جو کہ اپنے وقت کے بہت قابل اور مانے ہوئے واکیل تھے 

تعلیم حاصل کرنے میں واکیل صاحب کو بہت سی روکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا لیکن وہ اپنے مقصد سے پیچھے نہیں ہٹے کہتے ہیں میرے پختہ ارادوں نے میری تقدیر بدل دی میں تعلیم بھی حاصل کرتا رہا اور ساتھ میں بڑے بھائی ہونے کی حیثیت سے اپنے بہن بھائیوں کی ذمہ داری بھی سمبھال رہا تھا میں سارا دن سائیکلوں کا کام کرتا تھا اور رات میں تھک ہار کے پڑھائی کرتا تھا تاکہ میں اپنے مقصد میں کامیاب ہوجاؤں اور بہن بھائیوں کے اخراجات بھی پورے کر سکوں 

میں نے واکیل صاحب سے پوچھا اپنے L.L.B  کہاں سے کیا 
واکیل صاحب بتاتے ہیں میں نے L.L.B  گورنمنٹ جرنل LOW کالج سے کیا اور بحثیت واکیل اپنے اپکا اندراج کروایا اور باقائدہ وکالت شروع کردی 

میں نے واکیل صاحب سے پوچھا آپ وکالت میں کس چیز میں مہارت رکھتے ہیں 
میں زیادہ تر پروپرٹی جائیداد کے کیسسز میں مہارت رکھتا ہوں لیکن آج کل کے ماحول کو دیکھتے ہوئے میں نے سیول کیسسز اور فیملی کیسسز بھی لڑنا شروع کر دئیے اور اللٰہ نے ان میں مجھے بہت کامیابی دی 

میں پہلے طلاق کی تحریر کو بخوشی کرتا تھااور ایسے کیسسز میں بہت دلچسپی بھی لیتا تھا کیونکہ اس میں فیس اچھی ملتی تھی جب میں نے یہ سنا کہ طلاق وہ جائز عمل ہے جس سے اللٰہ کا عرش ہل جاتا ہے تو یہ سن کر مجھ پر بہت خوف طاری ہوگیا اور میں نے یہ تہیہ کر لیا کہ میں اب صرف روپے پیسے کے خاطر کسی کا گھر خراب نہیں کرونگا اور نہ ہی کوئی ایسا عمل کرونگا جس سے اللٰہ ناراض ہو اس کے بعد اب جب کبھی بھی میرے پاس میاں بیوی کے جھگڑوں کا کیس آتا ہے تو میری بھر پور کوششں یہ ہوتی ہے کہ میں ان میں صلح کرواسکوں اور الحمداللٰہ اللٰہ نے مجھے اس مقصد میں بہت کامیابی بھی دی 

جسمانی طور پہر چھوٹے قد کے بلند حوصلوں والے واکیل صاحب کے پاس ویسے تو بہت کیسسز ائے جن پر وہ خود بھی حیرت ذدہ ہیں ایک مرتبہ ایک شخص اپنی بیوی کو طلاق دینے کا پکا ارادہ کرکے آیا واکیل صاحب کہتے ہیں  میں نے اسے بہت اچھی طرح سمجھایا میری پوری کوششں تھی کہ میں ان کا رشتہ بچانے میں کامیاب ہوجاؤں اور بلکل ایسا ہی ہوا اس شخص کے بات سمجھ اگئی اس شخص نے فوری توبہ کی اور گھر روانہ ہوگیا کچھ دن بعد مجھ سے ملنے آئے تو وہ بہت دعائیں دے رہا تھا  کہ اگر اپ نے نہ سمجھایا ہوتا تو میرے بچے دربدر ہوجاتے اور میرا گھر اجڑ جاتا 

اسی طرح ایک اور کیس ایا جس میں نہ تو بیوی شوہر کے ساتھ رہنا چاہتی تھی نہ شوہر بیوی کے ساتھ وہ چاہتے تھے جلد از جلد طلاق ہوجائے میں نے اس شخص کو بہت سمجھایا پر نہ وہ مانا نہ اسکی بیوی ان کے بچے معصومیت سے اپنے والدین کا چہرہ دیکھ رہے تھے میں نے ان ہی معصوم بچوں کا واسطہ دے کر کہا طلاق دے دینا تو بہت اسان ہے مگر اس کے اثرات سے دو چار ہونا سب سے بڑا صبر آزما کام ہے حضور? نے بھی اسے اچھا فعل قرار نہیں دیا اللہ کے ہاں حلال کاموں میں سب سے زیادہ قابل نفرت کام طلاق ہے پھر بھی اس شخص کو کہاں اگر تم اب بھی طلاق دینا چاہتے ہو تو اس شخص کو میں نے ایک تجویز دی کہ شریعت میں ایک طلاق کی گنجائش ہے تاکہ اپ دوبارہ گھر بسا سکو دونوں میاں بیوی سوچتے رہے اور کچھ ہی دیر بعد گھر روانہ ہو گئے تھوڑی ہی دیر بعد فون کر کے کہنے لگے واکیل صاحب ہم اپ کے شکر گزار ہیں اپ نے ہمارا گھر بکھرنے سے بچا لیا 

دوسری جانب واکیل صاحب کے بارے میں یہ بھی مشہور ہے کہ میں سودی تحریر نہیں کرتا اور نہ ہی کسی کو کرنے دیتا ہوں اسکی وجہ یہ ہے کہ میں فارع اوقات میں اسلامی کتب کا مطعلہ کرتا رہتا ہوں اور اپنے پیشے سے متعلق احقام الہی کو سامنے رکھتا ہوں جسں دن میں نے یہ پڑھا اور متعدد مفتیانے اور علمائے کرام اور علماء   سے سنا کہ سود اللہ سے ایک جنگ ہے اور اسکو تحریر کرنے والا اسکو لانے پہچانے والا اسکی لین دین کرنے والا وہ سب سود میں شامل ہے یہ سن کر مجھ پر ایک انجانہ سہ خوف طاری ہوگیا اور میں نے اس گندے کام سے توبہ کرلی اور لوگوں کو بھی اسکے بارے میں بتانا شروع کیا جس پر ان لوگوں نے بھی میری تائید کی اور اس تحریر سے توبہ کرلی اور اج اللہ کا شکر ہے کہ میرے حلقائے احباب میں کوئی بھی یہ کام نہیں کرتا 

لہذا پیشہ چاہے کوئی بھی ہو اگر کوئی شخص ایمانداری اور دیانتداری سے شریعت کے احکام کو سامنے رکھتے ہوئے کام کریں تو اللہ کی مدد ضرور اسکے ساتھ ہوتی ہے 

"کامیاب لوگ اپنے فیصلوں سے دنیا بدل دیتے ہیں اور کمزور لوگ دنیا کے ڈر سے اپنے فیصلے بدل دیتے ہیں "

شہرت کی بلندیوں کو چھونے والے واکیل صاحب نے اپنے ہی بیٹے کو اپنا شاگرد منتخب کیا انکا کہنا ہے کہ میں اپنے بیٹے کو بھی اسی مقام پہ دیکھنا چاہتا ہوں جس مقام پہ میں ہوں 

پر وقار نرم مزاج شخصیت محمد اویس شیخ بتاتے ہیں میرے پاس اگر کوئی غریب اور مجبور شخص اپنا مقدمہ لیکر آتا ہے تو میں سب سے پہلے یہ جاننے کی کوشش کرتا ہوں کہ وہ جو مقدمہ میرے پاس لیکر ایا ہے کیا وہ واقعے اس سے تعلق رکھتا ہے کیا وہ واقعے سچ بول رہا ہے اور مجبور ہے اور وہ واقعی حق پر ہے یعنی اسکا کیس واقعی میں سچا ہے تو میں بلا مواضع ہرطریقے سے اور جہاں تک جانا ہوا وہاں تک جاکر اس کی اپنے خرچے سے ہر ممکن مدد بھی کرتا ہوں اور اسکی مالی  معاونت بھی کرتا ہوں 

دلچسپ بات یہ ہے کہ واکیل صاحب واکیل ہونے کے ساتھ فن خطاطی بھی کرنا جانتے ہیں اور اب انکی خواہش ہے کہ وہ L.L.M اور PH.D  کریں 

واکیل صاحب کہتے ہیں میں محنت کرنے سے کبھی نہیں گھبراتا میں بچپن سے بہت محنتی ہوں محنت سے انسان کی عزت و توقیر میں اضافہ ہوتا ہے 

دن ہو یا رات میرے گھر کے دروازے چوبیس گھنٹے مدد کے لیے کھلے رہتے ہیں کوئی تعلیم کے سلسلے میں دروازے پہ دستق دیتا ہے تو کوئی گھریلوں میاں بیوی کے لڑائی جھگڑے اور دیگر مسلوں کے لیے  دستق دیتا ہے 

لوگوں کو لگتا ہے کہ وکالت کے شعبے میں بہت ہی آسانیاں ہیں نہ ہی کوئی وزن اٹھانا نہ ہی کوئی کپڑے میلے اور نہ ہی کوئی جسمانی مشکت لیکن یہ کام وزن اٹھانے اور جسمانی مشکت سے زیادہ پیچیدہ اور بھاری ہے کیونکہ اس کام میں دماغ کو اور اپنے اپکو حا ضر و ناضر رکھنا پڑتاہے شروع شروع میں تو میں نے اس کام کو باقائدہ سیکھنے کے لیے گرمی سردی بارش اندھی ہو توفان میں بھی گھر سے باہر نکل کر اپنی ڈیوٹی پہ موجود رہتا تھا میں نے اس دوران میں لوگوں کی کچھ باتیں سنی کئی لوگوں کی کڑوی باتوں کو بھی بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ برداشت کیا 

واکیل صاحب ہر وقت اپنا فن دینے کو تیار رہتے ہیں کہتے ہیں کہ تعلیم سے کوئی محروم نہ رہے میں جب آفس سے گھر اتا ہوں تو میری کوشش ہوتی ہے کہ میں آن لائن بچوں کو پڑھاوں 

میں کبھی اج کے کام کو کل پہ نہیں چھوڑتا اور مدد کرنے سے کبھی پیچھے نہیں ہٹتا یہی وجہ ہے کہ میں لوگوں کے دلوں میں راج کر رہا ہوں 


Muhammad Awais Shaikh, Hyderabad, Lawyer, 

The practical work is carried under supervision of Sohail Sangi, 
at Media and Communication Department, University of Sindh