Showing posts with label Sarfaraz Noor. Show all posts
Showing posts with label Sarfaraz Noor. Show all posts

Friday, July 31, 2020

Sarfaraz Noor Justice Journalism Translation

Sarfaraz Noor /MMC-2K20/50
Topic- Justice Journalism       Medium-Urdu
Words in Original-1662        words in Translation- 
صحافی بطورنمائندہ معاشرتی تبدیلی 
Journalist as agent of social change  
منصفانہ صحافت کی بہت سی شکلیں  امریکی تاریخ میں معاشرتی ناانصافیوں کے خلاف لڑتے ہوئے ابھری ہیں، جن میں برطانوی حکمرانوں کی انقلابی بغاوت کے خلاف تھامس پین کی طرف سے دیئے گئے بنیادپرستی اور انتہا پرستی کے پرچے، اپٹن سنکلیئر کی رپورٹ جس نے شکاگو اسٹاک یارڈ میں غیرانسانی حالات کو بے نقاب کیا، ایڈا تاربیل کے ذریعے سے ایک نامور تیل کی کمپنی کے خلاف ایک تفتیشی رپورٹ، ڈوروتھی ڈے کی غربت کی ناانصافی کے خلاف شاندار کیتھولک اخبار میں کی گئی پیشگوئی، لنکن اٹیفن کے ذریعے بلدیاتی کرپشن پر حملے، جیسکا مٹ فورڈ کے ذریعے جنازے کی صنعت کی غیر قانونی منفع خوری سامنے لانا، 1960  کی دہائی میں زیر زمیں پریس کے ذریعے جنگی مشینوں کے ساتھ کھلی جدوجہد، ان جیسے کئی جنگجو صحافیوں نے اخلاقی طور پر مرتکب اور سیاسی طور پر مصروف وراثت کی بڑی مثال چھوڑی ہے۔ وہ سب معاشرتی طور پر باشعور ادیب تھے جنہوں نے اپنے اپنے طریقے سے منصفانہ صحافت پر کام کیا۔ 
گیریسن جو کہ قانون کی نفی کرنے والا، بنیاد پرست، اشتعال انگیز، ریاست کا دشمن، اور باغی قیدی تھا، امریکی معاشی غلامی کے خلاف ایک زبردست جنگ کا اعلان کیا تھا۔ ان کی پیش بینی اور دور اندیشی کی وجہ سے بذریعہ حکومت ان کی بغاوت کی مذمت کی گئی۔ ان کو جیل بھیجا گیا۔ غلام جہازوں کے مالکان کے ذریعے ان پر مقدمے بھی چلائے گئے۔ حتی کہ قتل کی دھمکیاں بھی دی گئیں اور ساتھ ساتھ لینچ گروہ نے فوری طور پر مقبوضہ زمین آزاد کروانے پر تشدد کا نشانہ بھی بنایا۔ 
گیریسن بطورنمائندہ،معاشرتی تبدیلی کے صحافتی نظریعے کے برعکس، آج کے بڑے پبلشرز اور ایڈیٹرز کو غیرجانبدار بنا کے انہیں صرف صحافتی طاقت کے استعمال کے لئے محض اسٹینوگرافر بنا کے رکھ دیا ہے۔ صاف گواور تقلیدی رائے رکھنے والے تنقید نگاروں کے آواز کوان  نام نہاد رپورٹرز کے حق میں جو اپنی غیرجابدارانہ  شکل کو پہلے سے مستحکم آرڈر کو برقرار رکھے ہوئے ہیں،  پوری طرح دبا دیا گیا ہے۔صحافتی  حلقے، بڑے پیمانے پر کارپوریٹ تصور جو کہ محفوظ، سینیٹائیزڈ اور اپنے طریقے سے بیٹھ کر رپورٹنگ کرنے والوں کے لئے بند تالوں کی مانند ہیں  اور شاذونادر ہی ماضی کی منصفانہ صحافت کو متاثرکن طلبہ کی نگاہ سے دکھاتے ہیں۔ 
کارپوریٹ پریس سے یکساں کیا ہوا تیزی سے پھیلتے ہوئے عالمی نظریعے نے صحافت کی نئی اور آزادانہ شکلوں میں ایک انقلاب برپا کر رکھا ہے اور ذراع ابلاغ کے آزادانہ میڈیا گروہوں کو خبروں کو اپنے ہاتھ میں لینے پر مجبور کردیا ہے۔ 
لوگوں کی ذاتی زندگی کے رازفاش کرنے والی صحافت پوری دنیا میں مظاہروں کے باوجود دوبارہ جنم لے رہی ہے اور گلی کوچوں اور بے گھر پناہ گاہوں میں بھی دکھائی دینے لگے ہیں۔ آج منصفانہ صحافت کی ایک واضع اور صاف گوشکل برینڈ میڈیا کی سرگرمی، غربت کے خلاف بغاوتی رپورٹ اور معاشی عدم مساوات کے خلاف اخبارات کے ذریعے گھر گھر پہنچ رہی ہے۔ 

Going against the Grain    فطرت یا رواج کے خلاف جانا
میڈیا کے تنقیدنگار،نارمن سلیمان کے مطابق معاشرے میں ایک آزادانہ، پرعزم، فکری نظریعے پر مبنی صحافت کی بہت ضرورت ہے۔ نارمن سلیمان جو کہ  ’Habits of highly deceptive Media’کے مصنف بھی ہیں، مزید کہتے ہیں کہ رواج کے خلاف جانا کبھی آسان نہیں تھا، خاص طور ان صحافیوں کے لئے جو کہ حمایتی صحافت میں مصروف رہیں ہیں۔ سلیمان کا کہنا ہے کہ میڈیا کے برعکس یا خلاف آواز اٹھانا بھی ایک چیلینج ہے اور اس میں بہت سی رکاوٹیں بھی حامل ہیں۔ 
اگر ہم سین فرینسسکو، بارکلی اور آکلینڈ کی ریئل اسٹیٹ کی مثال لیں تو زیادہ تر صحافی اخبارات کے مالکان کو عام گھروں میں موجود لوگوں سے زیادہ اہمیت دیتے دکھائی دیتے ہیں۔سلیمان، میڈیا اور سماجی عمل میں تفریق کو ہٹانے کی بات کرتے ہوئے، ان آزاد میڈیا سینٹرز کی نشاندہی کرتے ہیں جو کہ سیٹل اور واشنگٹن میں ابھرے، جنہوں نے غیرجانبدارانہ طور پر غیر جمہوری کارپوریشن کو عالمی سطح پر میڈیا کوریج دی۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ یہ سسٹم رائج شدہ میڈیا کے تصور کے برعکس ہے، اگر آپ کارپوریٹ سسٹم کو مانے یا مانے، یہ آپ کو قابل اعتماد صحافی بنا دیتا ہے۔
اٹلی کے شہر جنیوامیں ہونے والے عالمی احتجاج پر مبنی آزاد صحافیوں پر پولیس کے تشدد اور حملوں سے یہ پتہ چلتا ہے کہ غالب حکمرانوں کی ناانصافیوں کا مقابلہ کرنے والے بنیاد پرست صحافی اکثر ان کے ظلم وجبر کا شکار ہوتے ہیں جو ان کے کارکنوں کو پیش آتے ہیں۔ ان کے خیال کے مطابق یہ بہت اہم حیثیت رکھتا ہے، کیونکہ کارکن اور آزاد صحافی دونوں ہی کارپوریٹ ڈھانچے کے لئے خطرہ بن سکتے ہیں۔ 
لیزا سوسا، جو کہ سین فرانسسکو کے آزاد میڈیا سینٹر (IMC) کی رضاکارارنہ کارکن ہیں، سلیمان کی ان پولیس حملوں کے اندازوں سے متفق ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اٹلی کے شہر جنیوا میں آزاد صحافیوں کے خلاف ہونے والے غیر انسانی رویے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس معاشرے میں حقیقت کو ظاہر کرنا کتنا خطرناک ہوگا۔سوسا اپریل 2002 کو امریکہ کے فری ٹریڈ ایریا (FTAA) احتجاج کا احاطہ کرنے کیوبیک روانہ ہوگئیں۔وہ کہتی ہیں کہ جب پولیس آپ پہ تشدد کرکے گولیاں چلا رہی ہیں اور آپ کے فلمبند کی گئی ٹیپس بھی ضبط کرتی ہے تو اس سے یہ ثابت ہوا کہ آزادانہ اور منصفانہ صحافت ایک سرگرمی کے علاوہ کچھ نہیں۔

سوسا آج کے بہت سے جمہوری سیاست کرنے والے نوجوانوں سے متفق ہیں،جنہوں نے کارپوریٹ صحافت کی تعریفوں کو چیلینج کیا ہے۔ سوسا کے مطابق کسی بھی شہنشاہ یا حاکم کو کوئی معروضیت یعنی نظریعہ نہیں اور معروضی سیاست صرف ایک متک یا فرضی حکایت ہے۔ بڑی بڑی کارپوریشن کا کوئی ہدف یا مقصد نہیں ان میں سے بہت سی کارپوریشن مالی دباؤ میں گھری ہوئی ہیں،کم از کم پیسے سے میڈیا کو نہیں خرید سکتے۔
پرلسٹین اپنی حمایتی صحافت کو برٹولٹ بریچ کے مقالے سے تشبیہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ فن صرف وہ آئینہ ہی نہیں جو حقیقت کی عکاسی کرتا ہے بلکہ ایک ہٹھوڑے کی طرح ہے جس سے کسی بھی چیز کو شکل دی جا سکتی ہے۔ ان کے مطابق وکالتی یا حمایتی صحافت میں میڈیا ایک اوزار کی طرح عوام کی رائے کوبڑی حد تک متاثر کرتی ہے۔لیکن یہ دونوں کے لئے راستے میں رکاوٹ ہے چناچہ نہ صرف و کالتی صحافت بلکہ ساتھ ساتھ کارپوریٹ میڈیا بھی وہی چیز کر رہی ہوتی ہے۔ 
مساوی جمہوری تحریک نے اخبار کے لئے امریکہ، کیناڈا اور یورپ میں  معدوم کی جانے والی اخبارات کو ایک نیا رخ دیا ہے۔ اس اسٹریٹ اخبار تحریک نے بہت سے بے گھر افراد اور کارکنوں کو چھپی ہوئی غربت اور خلاف ورزی کرنے والے کے خلاف آزادانہ طور پر لکھنے کے لئے حوصلہ افزائی کی، جو کہ کارپوریٹ میڈیا میں کبھی نہیں اچھالے گئے۔ 
اسٹریٹ اخباری مصنفین اب بہت ہی کم جانکاری والے علاقوں جیسے کچی آبادی کے ہوٹل، بے گھر پناہ گاہیں، ویلفیئر کے دفاتر  اور ایسی دور دراز گلیوں جہاں پولیس غریب لوگوں کو مجرم مانتی ہیں،رپورٹنگ کے لئے بھیجتے ہیں۔ جبکہ مرکزی میڈیا اپنے دقیانوسی رویے سے نہ صرف بے گھر افراد بلکہ ان کی تجارت  اور سیاحت کو بھی نقصان پہنچانے کے لئے حملہ آور ہوتی ہیں، نتیجے طور بے گھر وکیل اپنے حقوق کے لئے ان اخبارات کے خلاف  لڑتے اور آواز اٹھاتے ہیں۔ 
چانس مارٹن، جو کہ ایڈیٹر ہیں، موجودہ معروضی صحافت کو قدرے ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ موجودہ صورتحال کو برقرار رکھنے کی جان بوجھ کر کوشش کی جارہی ہے۔ان کے خیال میں موجودہ مرکزی میڈیا کو جس بات سے زیادہ خوف و خطرہ ہے وہ عوام کی طرف سے معمول اور مقرر حدود سے باہر نکلنے والی آواز ہے۔ بحیثیت ایک مصروف کار صحافی مارٹن سین فرینسسکو کے بے گھر افراد کے مسائل کے حوالے سے ٹیلی وژن کی نشریات پر اعتراض کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہاں کی میڈیا میں بہت سخت تعصب پایا جاتا ہے۔ 
ہمیں لوگ اپنے قانونی مقصد کے ساتھ ملتے ہیں، جیسے ایکٹ اپ کے کارکنان ایڈز کی تحقیق کے لئے فنڈز جمع کرتے ہوئے ملتے ہیں، بے گھر افراد اپنے لئے گھر تلاش کرنے کے لئے رقم جمع کرتے ہوئے ملتے ہیں، جنگ کے مخالفین اسٹار وار کے خلاف لڑتے ہوئے، اور مین اسٹریم میڈیا ان لوگوں کو غیر اہم، پرتشدد اور خطرناک قراردیتی ہیں اور نوجوانوں کو ان سے ہمعسری اور ملنے جلنے سے منع کرتی ہے۔ سرمایاداری کے مخالفین کی تحریک دیکھ کر اس بات کا تو اندازہ ہوگیا ہے کہ آجکل کی نوجوان نسل ایک نئی میڈیا کو بنانے میں دلچسپی لے رہی ہے جو کہ بہت خوش آئیند اور حوصلہ افزائی والی بات ہے۔ اور یہ واقعی ایک حقیقت ہے کیونکہ اس سے اشتہاری اور غیر مادی میڈیا کو حتمی معیارملا ہے۔ 
مارٹن وکالتی اور شراکتی صحافت کے عمل کا دفاع کرتے ہوئے ایک سوال ابھارتے ہوئے کہتے ہیں کہ کیا کسی شخص کا اچھا صحافی بننے کے لئے اپنا ضمیر بیچنا ضروری ہے؟
کین موشیح بطور Poor Magazine کے صحافی،صحافت اور سرگرمیوں کی دیواروں کو دوسروں سے شاید کچھ زیادہ ہی پھلانگا ہوگا۔ بارکلی کے بے گھر رہائشی موشیح کو غیر قانونی قیام کے باعث کیلیفورنیا یونیورسٹی کی پولیس نے بارہا گرفتار کیا ہے۔ ایک ماہر صحافی، موشیح نے عدالت میں نتیجتن پیشیاں بھگتیں، اور بارلی سٹی حال کے خلاف ہونے والے احتجاج میں بھی اپنا بھر پور کردار ادا کیااور عدالتی کاروائی کر کے پہلے سے قائم شدہ قانون کو ختم کیا۔
موشیح نے اپنی عدالتی لڑائی کو بڑی بڑی میڈیا میں اچھالالیکن اس نے فیصلہ کیا کہ وہ  اپنی آواز میں یہ خبر بے گھر پریس میں دیگا۔موشیح کے کہنے کہ مطابق چونکہ بے گھر لوگوں کے تجربات کو خبر کے قابل نہیں سمجھا جاتاتاہم انہیں مرکزی پریس میں اتنی اہمیت نہیں دی جاتی کہ ان کی زندگیوں میں کیا ہو رہا ہے جو کہ سرکاری افسران کے نقطہ نظر سے اب بھی غربت کو ایک جرم قرار دینے کے مترادف ہے۔ موشیح بے گھر کرنے والے اندھے قانون کو میڈیا کی جمہوریت میں ایک نقص سے مثال دیتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ جمہوریت سب لوگوں کے لئے یکساں ہونی چاہئے،تاکہ کوئی بھی میڈیا میں اپنا تسلط اور رعب قائم نہ کر سکے اور کسی کی بھی آواز کو کسی بھی طرح دبایا نہ جائے۔ 
ریڈمونڈ کے تجزیئے کے مطابق، آجکل اخبارروایتی،متبادل اوراسٹریٹ اخبار مہم کی نچلی سطح سے اوپر آتی دکھائی دے رہی ہے۔ آجکل تسلط سے گھری ہوئی تنظیمیں قریب المرگ دکھائی دینے لگی ہیں اور آگے اس سے بھی بڑی تبدیلی متوقع ہے۔سرگرم کارکن آجکل انٹرنیٹ،اداریہ اور تجزیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں۔اس ملک میں اس کا ایک بہت بڑا کردار رہا ہے۔ 
کارپوریٹ میڈیا کی طرف سے عائد کئے ہوئے سماجی اختیار کے باوجود،آج بھی انصاف کے متلاشی صحافی، جیسے پیں اور گیریزن کے دور میں تھے، ایک کونے میں بیٹھ کراپنے ضمیر کو مارنے سے انکار کرتے ہیں۔ آج بھی وہ اقدار میں بیٹھے لوگوں کی آواز میں صرف ایک خصی جانور کی طرح بولنے سے انکاری ہیں۔ منصفانہ صحافت آج بھی زندہ ہے جوکہ نچلی سطح اور مظلوم طبقات سے صادر ہوتی ہے، جہاں اس کا اصل مقام رہا ہے۔ 

Practical work carried under supervision of Sir Sohail Sangi, at Institute of Media & Communication Studies, University of Sindh, Jamshoro, Sindh Pakistan

#JusticeJournalism

Thursday, March 12, 2020

Sarfaraz Noor- Feature- Urdu MA 50

Not reporting based 
Avoid English words 

Feature-Sarfaraz Noor-MA- Roll 50-Urdu
سینڈس پٹ ساحل کراچی
سرفراز نور
شہر کراچی کو پاکستان کے دوسرے شہروں سے منفرداور لاثانی بنانے میں ساحل سمندر کا کردار سب سے زیادہ نمایاں رہا ہے۔جہاں یہ شہر جدید طرز زندگی اور بڑی بڑی صنعتوں کے قیام سے آلودہ اور غیر شفاف ہو چکا ہے،وہاں کراچی کے ساحل سمندر کچھ دیر کے لئے ہی سہی لوگوں کو پر فضا، شفاف اور متین ہوا میں سانس لینے کا موقع فراہم کرتاہے۔ یوں تو کراچی ساحل سمندر کی خوبصورتی سے مالامال ہے جن میں ہاکس بے، فرینچ بیچ، کلفٹن بیچ کے نام قابل ذکر ہیں لیکن شہر سے لگ بھگ25  کلومیٹرکی مسافت پر واقع سینڈس پٹ بعچ اپنے صاف شفاف نیلے رنگ کے غیر آلودہ پانی، کرکری ریت، پر فضا حلیم اور متانت سے بھر پور ماحول کی وجہ سے، دور دراز سے آنے ولے سیاحوں کو اپنے حسن و جمال کے باعث موہت کرنے میں سبقت لے چکا ہے۔
پاکستان کے جنوب مغرب میں واقع مشہور سیاحتی مقام سینڈس پٹ بیچ کے لئے جب آپ کراچی کے مختلف راستوں سے گزرتے ہوئے ماڑی پورپہنچتے ہیں تو وہاں سے سینڈس پٹ کی حدود شروع ہوتی ہیں، جہاں سے صرف 3  سے 4 کلومیٹر کی مختصر سی دوری پر ایک تخیلاتی اور پرفتن بحری سیاح گاہ آپ کی منتظر ہوگی۔بے ترتیب اور پر شور زندگی سے تنگ لوگ جب سینڈس پٹ کی ٹھنڈی ریت پر پاؤں رکھتے اور سمندری ہواؤں کو اپنی سانسوں میں بھرتے ہیں تو ازسرنو اپنی رکی ہوئی زندگی کو متحرک پاتے ہیں۔سینڈس پٹ کا شہری سیویریج اوردھویں کی آلودگی سے پاک  صاف شفا ف اتھرا ہوا پانی تیراکی اور غسل سورج "Sun bathing" کے لئے بہترین ہے۔علاقے کی غیر معمولی پتھریلی اور ریتی زمین پر گھوڑوں اور اونٹوں کی سواریاں، لوگوں کے لئے تفریح اور ماہگیروں کے لئے ذریعہ معاش کے بہترین اسباب ہیں۔
سینڈس پٹ کا نام دراصل سردیوں کے موسم میں ریت پر بننے والے ان گڑھون کی وجہ سے رکھا گیا ہے جہاں کچھوے اپنے انڈے دیتے ہیں،جو کہ ریت پر باآسانی دیکھے جاسکتے ہیں۔ہرے کچھوے کی معدوم اقسام کو محفوظ کرنے کے غرض سے اور جنگلی حیات "Wildlife" کا شعور اجاگر کرنے کے لئے WWF ورلڈ وائلڈ لائف فنڈکی طرف سے بیچ پر ویٹ لینڈ سینٹر قائم کئے گئے ہیں، تاکہ سمندری جیو جیسے کچھوے، کیکڑے اور طحالب "Sacchrum Spontneum Plant" کو محفوظ کیا جاسکے۔
اکتوبر سے مارچ تک سینڈس پٹ بہت ہی پر سکون ہوتا ہے اور یہاں ان دنوں میں لوگ شاذونادر ہی بیچ پر نظر آئینگے ماسوائے ماہیگیروں اور دوسرے صوبوں یا دوردراز کے علاقون سے آئے ہوئے لوگ، تاہم مارچ کے بعد اور مون سون کے موسم میں سمندر کاجوش دیکھنے لائق ہوتا ہے۔
سینڈس پٹ آنے والے لوگ اپنے لئے کُٹیا "Hut/Cottage" پہلے سے ہی بُک کروالیتے ہیں،بہرحال کچھ لوگ عین وقت پر ہی کُٹیا بُک کرنے کو ترجیع دیتے ہیں،بقول ان کے، ہٹ کی پری بکنگ پر زیادہ پیسوں کی بے وجہ لاگت آتی ہے۔کُٹیا کے نرخ موسم سرما میں کم  جبکہ گرمی اور مون سُون کے دنوں میں یہ قیمتیں آسمان کو چھوتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔سینڈس پٹ میں دیئے جانے والے Huts صرف فیملیزاور کارپوریٹ پروگرام کے لئے مخصوص ہیں جن میں روزمرہ کی ضروریات زندگی کی ہر چیز میسر ملتی ہے، گھومنے آئے ہوئے لوگ کھانا اور چائے وغیرہ بناتے ہوئے گھر جیسے ماحول میں بیٹھ کر فطرت کی قربت سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔علاوہ ازیں ضرورت پڑنے پر آرڈر پر مختلف طعام جن میں بار بی کیو اور دیگر روایتی کھانے بھی تیار کئے جاتے ہیں۔ٹھنڈی ٹھنڈی پُر عزم ہواؤں کے مسحورکن شور میں لوگ اپنے ہٹ میں بیٹھ کر لوگ جب اپنا کھانا تناول کرتے ہیں تو سمندر کی موجیں بھی ان کے ساتھ خوشی سے جھومتی محسوس ہوتی ہیں۔سینڈس پٹ کے Huts اپنے دوستوں یا کنبہ کے ساتھ پکنک، شادی یا پارٹی کے لمحات سے لطف لیتے ہوئے ساحل سمندر کے پوشیدہ خزانووں کو دریافت کرنے کے بہترین مواقع فراہم کرتے ہیں۔دن بھر نہاتے، ساحل پر ریت کے محل بناتے، سیپیاں جمع کرتے، دوست احباب کے ساتھ قہقہے لگاتے، موجوں کے پر جوش شور میں خاموشی سے ناتہ توڑتے ہوئے یہاں آنے والے اپنے اندر ان گنت یادیں سمیٹ کر جاتے ہیں۔
شام کی چائے پیتے ہوئے Huts کے وسیع ٹیرس سے غروب آفتاب کا دلفریب نظارہ بھی قابل دید ہوتاہے، ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے فلک پر گہرے سرخ رنگ کی چادر اوڑھے کوئی آسمانی پری، شفق کے دیدہ زیب رنگوں میں پر پھیلائے، آنے والی اندھیری رات کا اشارہ دیتے ہوئے، پورا دن ساتھ گزارنے والے سیاحوں کو خیرباد کہہ رہی ہو۔زندگی کا سفر بھی سمندر جیسا ہوتا ہے جہاں ہر لمحے ایک کے بعد دوسری لہرآتی ہے لیکن زندگی کا کاروان لہروں کے آنے جانے سے رکتا نہیں۔