Tuesday, May 5, 2020

Aisha Aslam Profile Urdu

Photo is missing
Subject line and file name not proper,
Paragraphing not observed
To be checked

عائشہ  محمد اسلم 
استاد : سر سہیل سانگی
رول نمبر : 2K20/MMC/9
پرو فائل:  صدف اشرف 
چھوٹے ذہنوں میں ہمیشہ خواہشیں اور بڑے ذہنوں میں مقاصد ہوا کرتے ہیں ایسے ہی صدف اشرف ان با شعور خواتین میں سے ہیں جو کے محض اپنے لیئے نہیں دوسروں کیلئے محنت و مشقت اور جدو جہد کرتی رہی ہیں ان کا تعارف اسم گرامی صدف اشرف اور ان کی پیدائش 1979 میں حیدرآباد کے شہر لطیف آباد میں ہوئی مامسٹر (اکنامکس) میں کیا پاکستان میں شعبے سے منسلک رہیں نا موار شخصیات دیکھتی اور ان کے بارے میں پڑھتی لیکن ان میں سے کچھ شخصیات نے اپنی زندگی کا بہت بڑا حصہ اس شعبے کی خدمت میں گزارا اور گزار ہی ہیں ان میں سے ایک صدف اشرف اعلیٰ معیار کہ تعلیم اور سب سے منفرد اخلاق کی مالک بھی ہیں صدف اشرف شروع سے ہی انتظامیہ اموار اور درس و تدریس کی صلا حیتوں سے معمور ہیں اچھے گھرانے سے تعلق رکھنے کے باوجود یا اپنے والد کی طبیعت خراب کی وجہ سے بہت ذہنی طور پر پریشان رہتی تھیں اپنے آپ کو اچھا اور قابل بنانے کی لگن ان پے ایسے سوار تھی کے اپنے والد کی طبیعت خراب اور گھر میں پریشانی ہونے کے باوجود یہ ہمیشہ یہی سوچتی رہتی کے اعلیٰ تعلیم کیسے حاصل کی جائے کسی مقام پے پہنچنے کے لیئے کیاجدو جہد کی جائے میں میٹرک کلاس کی تعلیم حاصل ہی کررہی تھی کے میرے والد انتقال کر گئے ان کے والد کے بعد گھر کو سنبھالنے والا کوئی نہیں تھا تو اس وقت میں نے کہاں کہاں نوکریاں نہیں کیں تعلیم اور باشعور خواتین بننے کی لگن صدف اشرف نے ایک ہی وقت میں نوکری اور اعلیٰ تعلیم حاصل کی تعلیم مکمل ہونے کے بعد کچھ اچھے محکمہ میں نوکری کے لیئے Applyکیا لیکن یہ کسی محکمہ کا انٹرویو پاس نا کرسکیں اس کے باوجود انہوں نے ہمت نہیں ہاری ہمت و حوصلے کے ساتھ کام لے کے خود کو آگے بڑھاتی رہیں اسی حوصلے سے آخر کار اپنی منزل پے فائض ہوئیں اور اسی ہمت و حوصلے، محنت و مشقت کے ساتھ بروئے کار اپنے عمل میں لائی ہیں اس لگن و جستجو کے ساتھ اپنی شخصیت کو مزید نکھارہ اُن خواتینوں میں سے خود عالمی خواتین بنی اور اپنا تعارف اُن خواتین سے مختلف خصوصیات رکھتے ہوئے اپنی اس دورے زندگی کا متعارف کروایا صدف اشرف ایسی خواتین بھی رہیں کے ماسٹر (اکنامکس) 2005میں کیا ماسٹر پورا ہونے کے بعد صدف اشرف نے سوشل ورک کرنا شروع کیا ایک وقت میرے بہت برُ ے دن،برُ ے حالات دیکھے ہیں کہ اب دل کی لگن یہ تھی کے پڑھ لکھ کے منزل پے فائض ہوں اور ایک زندہ مثال قائم کروں جو بے بس، مجبور، لاچار گھرانے سے تعلق رکھنے والی لڑکیاں موجود ہیں وہ اپنے آپ کو کسی سے کمتر نہیں سمجھیں وہ بھی اسی محنت و مشقت کے ساتھ گھر والوں کو Supportکرسکتی ہیں اُن کا بہت اچھے بیٹے جیسا سہارا بن سکتی ہیں۔ 
علم کا مطلب ڈگریاں حاصل کرنا نہیں "بلکے "سوچنے سمجھنے کہ صلاحیت کو بڑھانا ہے۔ ڈگری کا مل جانا اور منزل کو پالینا ہی سب کچھ نہیں بلکہ اخلاقی طور پر بھی اعلیٰ اخلاق کے مالک ہونا لازمی ہے اور اخلاق سے اپنی زبان کی میٹھاس کی وجہ سے اپنے سینئر زکے دلوں میں جگہ بنائی ہوئی ہے۔ انسانیت کی خدمات کے حوالے سے بھی مشورے میں اکثر فلاحی کام کرتی نظر آرہی ہیں اپنی 42سالہ زندگی میں سے 20سال شعبہ (اکنامکس) کو دیا۔ عوام کے دلوں اور ذہنوں پر حکمرانی کرتی نظرآرہی ہیں زندگی میں اُ تار چڑھاؤ آنے کے باوجود اپنی زندگی کو پُر عزم طریقے سے گزاررہی ہیں۔ فرق تو صرف اتنا ہے تیری اور میری تعلیم اور اخلاق میں تونے استاد سے سیکھا میں نے حالات سے۔۔


Key words: Sadaf Asharaf, Hyderabad, Latifabad, 

The practical work is carried under supervision of Sohail Sangi, 
at Media and Communication Department, University of Sindh

Qirat khan Profile Urdu

Writer's name in medium is missing
Revisit first para , how it is different, no mention, should have qualified this sentence 
Mind spelling like  واکیل 
Do not pu inverted comma to proper noun / names 
Do not use صاحب, its not appreciated in print media, at the most at one place 
U wrote  بہت سی روکاوٹوں , describe 
What other people say? 
its too long 1700 words 
Decide which  name u want to adapt: Qirat Khan, Qirat Shakeel, Qirat M. Shakeel. 



Qirat khan
2k20/MMC/42
Profile
Urdu 
MA previous    
   
          " محمد اویس شیخ" 

ویسے تو حیدرآباد میں بہت سے واکیل ہیں لیکن محمد اویس شیخ جیسے نامی گرامی واکیل اپنی مثال آپ ہیں 

پاکستان میں رہنے والے محمد اویس شیخ کا تعلق حیدرآباد کے شہر ریشم بزار سے ہے محمد اویس شیخ بتاتے ہیں کہ میں کم عمر میں ہی ہائی کورٹ کا واکیل بن گیا تھا اس مقام پہ میں اپنی محنت، لگن،جدوجہد اور اپنے والد صاحب کی وجہ سے اج لوگوں کی نظر میں قابل عزت و احترام ہوں میرے والد صاحب جن کی وجہ سے میں اج اس مقام پہ ہوں چند ماہ پہلے ہی رضائے الہی سے انتقال کر گئے

واکیل صاحب کہتے ہیں میرے خاندان میں کوئی تعلیم یافتہ نہیں تھا مجھے بچپن سے ہی واکیل بننے کا شوق تھا لیکن گھر کے حالات اور اخراجات کی وجہ سے میں مایوس ہوجاتا تھا کیونکہ مجھے لگتا تھا تعلیم صرف پیسے والے لوگ ہی حاصل کر سکتے ہیں دل کہتا تھا دنیا خرید لوں جیب کہتی تھی بکواس نہ کر لیکن انسان اپنی محنت اور کوششں سے نہ ممکن کو بھی ممکن میں بدل سکتا ہے اگر ارادے پختہ اور مقصد کو پورا کرنے کا جوش و ولولہ ہو تو 

مقبولیت،شہرت اور واکیل بننے کا اس حد تک شوق تھا کہ بچپن کے کھیلنے کودنے کے دنوں میں ہی واکیل صاحب اپنے والد کے دوست "غلام مرتضٰی" کے ساتھ کورٹ جایا کرتے تھے

میں نے واکیل صاحب سے پوچھا آپ اس شعبے میں کیسے آئے 
واکیل صاحب بتاتے ہیں کہ میں اس شعبے میں حادثاتی طور پہ آیا تھا میرا خاندان سائیکل کے کاروبار سے وابستہ تھا میرے والد صاحب کو سائیکل مارکیٹ کے چند افراد نے پریشان کیا ہوا تھا جس سے میرے والد صاحب نے ان سے تنگ اکر ان کے خلاف کورٹ میں کیس داخل کر دیا لیکن میرے والد کے پاس اس وقت کیس لڑنے کے لییاور واکیل کرنے کیلئے پیسے نہیں تھے تو انھوں نے مجھ سے درخواست لکھوا کر کورٹ میں جمع کروائی کیونکہ میری رائٹنگ کو میرے والد صاحب کے دوست غلام مرتضٰی جو کہ خود بھی ایک واکیل تھے انھوں نے بہت پسند کیا اور انھوں نے خواہش ظاہر کی کہ وہ مجھے کورٹ ہی کام کرنے کے لیے چھوڑ دیں بعد ازیں میرے والد صاحب کورٹ سے کیس بھی جیت گئے اور والد صاحب نے معاف بھی کر دیا اس دن سے اب تک میں کورٹ سے وابسطہ ہوگیا 

واکیل صاحب کا خواب تھا کہ وہ قائداعظم کی طرح وکالت کریں قائدعظم ان کے آئیڈیل شخصیت ہیں جو کہ اپنے وقت کے بہت قابل اور مانے ہوئے واکیل تھے 

تعلیم حاصل کرنے میں واکیل صاحب کو بہت سی روکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا لیکن وہ اپنے مقصد سے پیچھے نہیں ہٹے کہتے ہیں میرے پختہ ارادوں نے میری تقدیر بدل دی میں تعلیم بھی حاصل کرتا رہا اور ساتھ میں بڑے بھائی ہونے کی حیثیت سے اپنے بہن بھائیوں کی ذمہ داری بھی سمبھال رہا تھا میں سارا دن سائیکلوں کا کام کرتا تھا اور رات میں تھک ہار کے پڑھائی کرتا تھا تاکہ میں اپنے مقصد میں کامیاب ہوجاؤں اور بہن بھائیوں کے اخراجات بھی پورے کر سکوں 

میں نے واکیل صاحب سے پوچھا اپنے L.L.B  کہاں سے کیا 
واکیل صاحب بتاتے ہیں میں نے L.L.B  گورنمنٹ جرنل LOW کالج سے کیا اور بحثیت واکیل اپنے اپکا اندراج کروایا اور باقائدہ وکالت شروع کردی 

میں نے واکیل صاحب سے پوچھا آپ وکالت میں کس چیز میں مہارت رکھتے ہیں 
میں زیادہ تر پروپرٹی جائیداد کے کیسسز میں مہارت رکھتا ہوں لیکن آج کل کے ماحول کو دیکھتے ہوئے میں نے سیول کیسسز اور فیملی کیسسز بھی لڑنا شروع کر دئیے اور اللٰہ نے ان میں مجھے بہت کامیابی دی 

میں پہلے طلاق کی تحریر کو بخوشی کرتا تھااور ایسے کیسسز میں بہت دلچسپی بھی لیتا تھا کیونکہ اس میں فیس اچھی ملتی تھی جب میں نے یہ سنا کہ طلاق وہ جائز عمل ہے جس سے اللٰہ کا عرش ہل جاتا ہے تو یہ سن کر مجھ پر بہت خوف طاری ہوگیا اور میں نے یہ تہیہ کر لیا کہ میں اب صرف روپے پیسے کے خاطر کسی کا گھر خراب نہیں کرونگا اور نہ ہی کوئی ایسا عمل کرونگا جس سے اللٰہ ناراض ہو اس کے بعد اب جب کبھی بھی میرے پاس میاں بیوی کے جھگڑوں کا کیس آتا ہے تو میری بھر پور کوششں یہ ہوتی ہے کہ میں ان میں صلح کرواسکوں اور الحمداللٰہ اللٰہ نے مجھے اس مقصد میں بہت کامیابی بھی دی 

جسمانی طور پہر چھوٹے قد کے بلند حوصلوں والے واکیل صاحب کے پاس ویسے تو بہت کیسسز ائے جن پر وہ خود بھی حیرت ذدہ ہیں ایک مرتبہ ایک شخص اپنی بیوی کو طلاق دینے کا پکا ارادہ کرکے آیا واکیل صاحب کہتے ہیں  میں نے اسے بہت اچھی طرح سمجھایا میری پوری کوششں تھی کہ میں ان کا رشتہ بچانے میں کامیاب ہوجاؤں اور بلکل ایسا ہی ہوا اس شخص کے بات سمجھ اگئی اس شخص نے فوری توبہ کی اور گھر روانہ ہوگیا کچھ دن بعد مجھ سے ملنے آئے تو وہ بہت دعائیں دے رہا تھا  کہ اگر اپ نے نہ سمجھایا ہوتا تو میرے بچے دربدر ہوجاتے اور میرا گھر اجڑ جاتا 

اسی طرح ایک اور کیس ایا جس میں نہ تو بیوی شوہر کے ساتھ رہنا چاہتی تھی نہ شوہر بیوی کے ساتھ وہ چاہتے تھے جلد از جلد طلاق ہوجائے میں نے اس شخص کو بہت سمجھایا پر نہ وہ مانا نہ اسکی بیوی ان کے بچے معصومیت سے اپنے والدین کا چہرہ دیکھ رہے تھے میں نے ان ہی معصوم بچوں کا واسطہ دے کر کہا طلاق دے دینا تو بہت اسان ہے مگر اس کے اثرات سے دو چار ہونا سب سے بڑا صبر آزما کام ہے حضور? نے بھی اسے اچھا فعل قرار نہیں دیا اللہ کے ہاں حلال کاموں میں سب سے زیادہ قابل نفرت کام طلاق ہے پھر بھی اس شخص کو کہاں اگر تم اب بھی طلاق دینا چاہتے ہو تو اس شخص کو میں نے ایک تجویز دی کہ شریعت میں ایک طلاق کی گنجائش ہے تاکہ اپ دوبارہ گھر بسا سکو دونوں میاں بیوی سوچتے رہے اور کچھ ہی دیر بعد گھر روانہ ہو گئے تھوڑی ہی دیر بعد فون کر کے کہنے لگے واکیل صاحب ہم اپ کے شکر گزار ہیں اپ نے ہمارا گھر بکھرنے سے بچا لیا 

دوسری جانب واکیل صاحب کے بارے میں یہ بھی مشہور ہے کہ میں سودی تحریر نہیں کرتا اور نہ ہی کسی کو کرنے دیتا ہوں اسکی وجہ یہ ہے کہ میں فارع اوقات میں اسلامی کتب کا مطعلہ کرتا رہتا ہوں اور اپنے پیشے سے متعلق احقام الہی کو سامنے رکھتا ہوں جسں دن میں نے یہ پڑھا اور متعدد مفتیانے اور علمائے کرام اور علماء   سے سنا کہ سود اللہ سے ایک جنگ ہے اور اسکو تحریر کرنے والا اسکو لانے پہچانے والا اسکی لین دین کرنے والا وہ سب سود میں شامل ہے یہ سن کر مجھ پر ایک انجانہ سہ خوف طاری ہوگیا اور میں نے اس گندے کام سے توبہ کرلی اور لوگوں کو بھی اسکے بارے میں بتانا شروع کیا جس پر ان لوگوں نے بھی میری تائید کی اور اس تحریر سے توبہ کرلی اور اج اللہ کا شکر ہے کہ میرے حلقائے احباب میں کوئی بھی یہ کام نہیں کرتا 

لہذا پیشہ چاہے کوئی بھی ہو اگر کوئی شخص ایمانداری اور دیانتداری سے شریعت کے احکام کو سامنے رکھتے ہوئے کام کریں تو اللہ کی مدد ضرور اسکے ساتھ ہوتی ہے 

"کامیاب لوگ اپنے فیصلوں سے دنیا بدل دیتے ہیں اور کمزور لوگ دنیا کے ڈر سے اپنے فیصلے بدل دیتے ہیں "

شہرت کی بلندیوں کو چھونے والے واکیل صاحب نے اپنے ہی بیٹے کو اپنا شاگرد منتخب کیا انکا کہنا ہے کہ میں اپنے بیٹے کو بھی اسی مقام پہ دیکھنا چاہتا ہوں جس مقام پہ میں ہوں 

پر وقار نرم مزاج شخصیت محمد اویس شیخ بتاتے ہیں میرے پاس اگر کوئی غریب اور مجبور شخص اپنا مقدمہ لیکر آتا ہے تو میں سب سے پہلے یہ جاننے کی کوشش کرتا ہوں کہ وہ جو مقدمہ میرے پاس لیکر ایا ہے کیا وہ واقعے اس سے تعلق رکھتا ہے کیا وہ واقعے سچ بول رہا ہے اور مجبور ہے اور وہ واقعی حق پر ہے یعنی اسکا کیس واقعی میں سچا ہے تو میں بلا مواضع ہرطریقے سے اور جہاں تک جانا ہوا وہاں تک جاکر اس کی اپنے خرچے سے ہر ممکن مدد بھی کرتا ہوں اور اسکی مالی  معاونت بھی کرتا ہوں 

دلچسپ بات یہ ہے کہ واکیل صاحب واکیل ہونے کے ساتھ فن خطاطی بھی کرنا جانتے ہیں اور اب انکی خواہش ہے کہ وہ L.L.M اور PH.D  کریں 

واکیل صاحب کہتے ہیں میں محنت کرنے سے کبھی نہیں گھبراتا میں بچپن سے بہت محنتی ہوں محنت سے انسان کی عزت و توقیر میں اضافہ ہوتا ہے 

دن ہو یا رات میرے گھر کے دروازے چوبیس گھنٹے مدد کے لیے کھلے رہتے ہیں کوئی تعلیم کے سلسلے میں دروازے پہ دستق دیتا ہے تو کوئی گھریلوں میاں بیوی کے لڑائی جھگڑے اور دیگر مسلوں کے لیے  دستق دیتا ہے 

لوگوں کو لگتا ہے کہ وکالت کے شعبے میں بہت ہی آسانیاں ہیں نہ ہی کوئی وزن اٹھانا نہ ہی کوئی کپڑے میلے اور نہ ہی کوئی جسمانی مشکت لیکن یہ کام وزن اٹھانے اور جسمانی مشکت سے زیادہ پیچیدہ اور بھاری ہے کیونکہ اس کام میں دماغ کو اور اپنے اپکو حا ضر و ناضر رکھنا پڑتاہے شروع شروع میں تو میں نے اس کام کو باقائدہ سیکھنے کے لیے گرمی سردی بارش اندھی ہو توفان میں بھی گھر سے باہر نکل کر اپنی ڈیوٹی پہ موجود رہتا تھا میں نے اس دوران میں لوگوں کی کچھ باتیں سنی کئی لوگوں کی کڑوی باتوں کو بھی بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ برداشت کیا 

واکیل صاحب ہر وقت اپنا فن دینے کو تیار رہتے ہیں کہتے ہیں کہ تعلیم سے کوئی محروم نہ رہے میں جب آفس سے گھر اتا ہوں تو میری کوشش ہوتی ہے کہ میں آن لائن بچوں کو پڑھاوں 

میں کبھی اج کے کام کو کل پہ نہیں چھوڑتا اور مدد کرنے سے کبھی پیچھے نہیں ہٹتا یہی وجہ ہے کہ میں لوگوں کے دلوں میں راج کر رہا ہوں 


Muhammad Awais Shaikh, Hyderabad, Lawyer, 

The practical work is carried under supervision of Sohail Sangi, 
at Media and Communication Department, University of Sindh

Mir Shahdad Profile Sindhi

Despite repeated instruction foto is attached in text file
Writer's name in Sindhi and English is missing in text file 
Roll Number and  class ???
It is only based on personality's interview , other tools of reporting (observation, talking with other people)  are missing
 Information is in interesting manner 
 Do not use extreme and superlative words like بھترين
Mind spelling 

Name and roll No are added  Name Meer Shahdad Khan Roll No  31
و جي ھڪ بيھترين شخصيت فخر دادو انيس احمد وگھيو
ڪتابن سان آ دل منهنجي قطب خانو وطن منهنجو،
ڪتابن ۾ دفن ٿيندس ورق ٿينداڪفن منهنجو!
ان جي لاء قدرت جون ڏنل صلاحيتون به ڪنھن امير غريب جو فرق ناھن ڏسنديون اھڙي طرح خدا جي طرفان 18 مارچ 1995 ع تي  ضلع دادو  پيدا ٿيندڙ انيس احمد وگھيو کي مالڪ سائين جي طرفان گفٽ ۾ مليون ۽ ھن دادو جو نالو پڻ مشھور ڪيو۽ اڃا اڳتي به محنت ۾ پڻ لڳل آھي۔
مان پنھنجي ڳوٺ جو پهريون نوجوان آھيان جنھن جي محنت اوھان جي سامھون آھي. انيس احمد وگھيو 18 مارچ 1995 ع ۾ سب انسپيڪٽر محمد امين وگھيو جي گھر ۾ اک کولي پرائمري جا ٽري درجہ پنهنجي ڳوٺڪاڪڙي ۾ پڙھيو ھن جي قابليت ڏسي کين ھن جي والد صاحب وڌيڪ تعليم حاصل ڪرڻ لاء ڳوٺ مان وٺي دادو جي مزدور آباد مان پرائمري اسڪول ۾ داخلا وٺيڏني ۽ کين پنج درجہ سال 2005 ع ۾ مزدور آباد اسڪول مان پاس ڪري ۽ ان کان پوء اڳتي پڙھڻ جي لاء دادو جي مشھور اسڪول پرمانند ھرداس  ھاء اسڪول ۾ داخلا ورتي اسڪول ۾ بيھترين ڪارڪردگي پيش ڪندو رھيو ۽ 2008 ع ۾ ھن پنھنجي عزيز مائٽ پهرين سول انجنيئر محمد عثمان وگھيو مان متاثر ٿيڪري مھراڻ يونيورسيٽي ۾ سول انجنيئر ٿيڻ جو احد ڪريڇڏيائين ۽ ھن جي قابليت ڏسي 14 آگسٽ 2009 ع ۾ پوليس ھيڊڪوارٽر ۾ ٿيندڙ تقريب ۾ اسپيچ ڪامپٽيش ۾ حصو ورتو ۽ بيھترين ڪارڪردگيڪندي ان ڪامپٽيش ۾ پھرين پوزيشن حاصل ڪيائين ۽ سال 2010 ع ۾ ميٽرڪ جو امتحان بيھترين مارڪن ۾ پاس ڪرڻ سان گڏو گڏ راندين توڙيڪوئز مقابلن ۾ به بيھترين ڪارڪردگي ڪندي دادو ضلع ۾ پهرين پوزيشن حاصل ڪئي وڌيڪ تعليم حاصل ڪرڻ لاء استاد بخاري گورنمينٽ ڊگري ڪاليج دادو ۾ داخلا ورتي جاکوڙ ۽ جدو جھد جو شوق ته ننڍ پڻ کان ئي ھيو. سال 2012 ع ۾ انٽر ميڊيئٽ جو امتحان اي گريڊ ۾ پاس ڪرڻ کان پوء. سال 2012 ع ۾ سنڌ جي مڃيل اعلا درسگاھ مھراڻ يونيورسيٽي ۾ پري انٽريٽيسٽڏني ۽ رزلٽ اچڻ کان پوء خبر پئي ته آئون مھراڻ يونيورسيٽي جي انٽريٽيسٽ ۾ دادو ضلع ۾ پھرين پوزيشن تي اچي پنھنجي قابليت جو ثبوت ڏئي ۽ ان جو سڄوڪريڊٽ پنھنجي والدين کي ڏنائينڇو جو گھرو ماحول جي حثاب سان منھنجو وڏوڀاء جميل احمد وگھيو به سنڌ يونيورسيٽي ڄامشورو ۾ پڙھندڙ ھئو ۽ ان ٽائيم جي حثاب سان ٻه ڀائرٻن الڳ الڳ يونيورسيٽين ۾ پڙھائڻ ھڪ وڏي ڏکي ڳالھ ھئي پر بابا سائين محمد امين وگھيو ڏکي سکي وقت ۾ اسان کي ڪڏھن به ايئن محسوس نه ڪرايو ته اسان جي گھر جو ماحول ۽ خرچ ڪھڙي مشڪلاتن کي منھن ڏئي ھلائي رھيو ھئو اھو بابا سائين اسان کي ڪڏھن محسوس ڪرڻ نه ڏنو پر اسان ته زماني ۾ رھندڙ پڙھيل لکيل ماحول جي حساب سان سمجھون پيا ته بابا محمد امين وگھيو ڪيترن مشڪلاتن کي منھن ڏئي اسان کي پڙھائي رھيو آھي ۽ ان جي ڪري مان انيس احمد وگھيو ڏينھن رات محنت ڪندو رھيم ته جيئن بابا سائين جو خواب پورو ڪري سگھان ايئن ۽ منھنجي جدو جھد ھلندي رھي ۽ اڃا مان سال 2015 ع ۾ ٿرڊ ايئر پڙھي رھيو ھيم ته جون جولائي واري موڪلن ۾ دادو ڊسٽرڪٽ ھاسپٽل ۾ سائيڊ انجنيئر تور 2 مھينا سال 2015 ع ۾ ڪمڪيم ۽ ان کان پوء سال 2016 ع ۾ مھراڻ يونيورسيٽي ڄامشورو مان سول انجنيئرنگ پاس ڪرڻ سان ئي دادو ۾ آئي بي اي جو پروجيڪٽ ھلندڙ ھئو ان ۾ نوڪري جي آفر آئي ۽ ان پروجيڪٽ ۾ سائيڊ انجنيئر طور ٻه مھينا ڪمڪرڻ کان پوء وري سال 2017 ع ۾ مھراڻ يونيورسيٽي ۾ ماسٽرسڪرڻ جي لاء داخلا ورتي انيس احمد وگھيو وڌيڪٻڌايو ته ماسٽرس جي پڙھائي اڃا ھلندڙ ھئي ته مھراڻ يونيورسيٽي ڄامشورو منھنجي محنت کي ڏسي مون کي مھراڻ يونيورسيٽي ڄامشورو ۾ 11 جولائي سال 2017 ع ۾ ڪانٽريڪٽ تي ٽيچنگ اسسٽنٽ رکيو ويو ۽ اتي مسلسل اٺ مھينن جي محنت ۽ ڪاوشن کي ڏسندي يونيورسيٽي طرفان 14 مارچ 2018 ع ۾ کين مون کي سول انجنيئرنگ ۾ ليڪچرار مقرر ڪيو ويو. انيس احمد وگھيو وڌيڪٻڌايو ته سال 2018 ع ۾ مان سنڌ پبلڪ سروس ڪميشن جو امتحان پاس ڪري ورڪ ۽ سروس اينڊ ايريگيشن ۾ اسسٽنٽ انجنيئر جو عھدو پڻ ماڻيو. مگر پنھنجي والد جي رضا تي ان عھدي کي ڇڏي يونيورسيٽي ۾ تعليمي خدمتون سر انجام ڏيڻ کي ترجيح ڏنائون. زندگي جي ان ھلندڙ سفر دوران سال 2019 ع ۾ مان پنھنجي ماسٽرسڊگري پڻ مھراڻ يونيورسيٽيڄامشورو مان پاس ڪئي. انيس احمد وگھيو وڌيڪ ٻڌايو ته اڃان زندگي جو سفر ھلندڙ آھي ۽ ان ھلندڙ سفر دوران مان اسڪالر شپ تي آسٽريليا مان پي ايڇڊيڪرڻ جي پڻ اميد ۾ آھيان اگر توھان دوستن جون دعائن ساٿڏنو ته جلد ان سفر تي پڻ نڪربو.

Key words: Anis Ahmed Vighio, Dadu, Sports, MUET, Sindh University

The practical work is carried under supervision of Sohail Sangi, 
at Media and Communication Department, University of Sindh

Sanam Profile Sindhi

Revised version
To be checked Pls do not send repeated files, mark as corrected revised or other words,
mentioning the reason for sending file again

پروفائيل:ثمينه ميمڻ
صنم
2k20/MMC/48

انساني تاريخ جي هر دوۡر ۾ مردن سان گڏوگڏ عورتن به پنهنجي طريقي سان پاڻ ملهايو آهي، جنهن ۾ تعليم هجي يا هنر هجي، مختلف ادب هجي يا شاعري هجي، ان سميت زندگيءَ جي هر قسم جي ڪارنهوار ۾ عورتن جو اهم ڪردار رهيو آهي، سنڌ اندر شروعاتي ڏهاڪن واري دور ۾ عورتن جو ڪافي شين ۾ حصو گهٽ پر تمام اهم رهيو آهي. انهيءَ تسلسل کي جاري رکندي ويجهڙائي وارن ڏهاڪن ۾ مردن سان گڏوگڏ ڪافي عورتون جو سماج کي سڌارڻ لاءِ پهرين جي پيٽ ۾ وڌيڪ اڳڀريون رهيون آهن.
ويجهڙائي واري ڏهاڪن ۾ اسان وٽ محدود وسائل هجڻ ڪري تمام گهٽ عورتن پنهنجي شعوري سوچ جي واڌاري لاءِ ڪوشش ڪنديون هيون ۽ اڳتي نڪري اچي ڪري شعوري سجاڳي حاصل ڪنديون هيون، ثمينه ميمڻ به ويجهڙائي واري ڏهاڪن ۾ اڳتي آئي آهي ۽ پنهنجي محنت سان نالو ڪمايو آهي.
سنڌ جي نوشهروفيروز ضلعي مان گزرندڙ سپرهاءِ وي لڳ تاريخي شهر مورو ۾ ثمينه ميمڻ جو جنم ٿيو،  پرائمري تعليم مورو شهر جي احمد شاھ مان حاصل ڪئي. سيڪنڊري تعليم اين جي وي هاءِ اسڪول ڪراچيءَ مان ۽ انٽرميڊيٽ وومينس ڪاليج ڪراچيءَ، گريجوئيشن زبيده گورنمينٽ گرلس ڪاليج حيدرآباد ۽ وري ماسٽرس سنڌ يونيورسٽي جي ماس ڪميونيڪيشن شعبي مان ڪئي.
شاعري ۽ ڪهاڻي جيڪا ادب جي اهم صنفن مان آهن، ثمينه ميمڻ  شاعري ۽ ڪهاڻيون، ناول، مضمون پڙهڻ اسڪول واري دور ۾ شروع ڪيو، جنهن بعد لکڻ جي شروعات وومينس گرلس ڪاليج مان نڪرندڙ مئگزين ۾ ڪهاڻيءَ طور ڪئي، جنهن ۾ انعام پڻ حاصل ڪيائين. ان کان پوءِ 1985ع  کان باقاعدگيءَ سان لکڻ جي شروعات مختلف اخبارن ۾ لکڻ سان ڪئي جنهن ۾ هلال پاڪستان، عوامي آواز، روزاني مهراڻ، روزاني ڪاوش، ڪاوش مئگزين ۾ ڪئي. جنهن ۾ سندس ڪهاڻيون، شاعري، مضمون، ليک، انٽرويو ۽ تبصرا پڻ شامل آهن. هن 1985ع ۾ ڪراچيءَ مان نڪرندڙ ماهوار ”پارس“ ۾ اسسٽنٽ ايڊيٽر طور تي ڪم پڻ ڪيو، ۽ ڪراچيءَ ۾ سنڌ گريجوئيشن پاران شروع ڪيل ايم، اي، ايف (M.E.F)  اسڪول ۾ پڻ استاد جي حيثيت ۾ ڊيوٽي سرانجام ڏنائين.
سنڌ ادبي بورڊ ۾ سندس مقرري 16 اپريل 1990ع ۾ ڪمپيوٽر آپريٽر جي حيثيت ۾ ٿي. ان کان پوءِ بورڊ انتظاميه پاران کيس مليل اسائمينٽ ۾ ريسرچ اسسٽنٽ جون ذميواريون ڏنيون ويون. جنهن تحت هن سنڌ جي اديبن جي ڊائريڪٽري پڻ مرتب ڪئي ۽ بورڊ جي لائبرريءَ ۾ لائبررين طور مقرريءَ دوران ڪيٽالاگ پڻ جوڙيو، ان کان علاوه ٽي ماهي ”مهراڻ“  فهرست 1981ع کان 2006ع تائين پڻ مرتب ڏني.
مختلف دوۡرن ۾ سنڌ جا ناليوارا اديب ايڊيٽر رهي چڪا آهن. ويجهڙائيءَ واري دوۡر ۾ يعني 2011ع کان اڄ تائين سنڌ جي ناليواري ڪهاڻيڪاره ، شاعره ثمينه ميمڻ ايڊيٽر جي حيثيت ۾ پنهنجون خدمتون سرانجام ڏئي رهي آهي. جنهن جي ادارت ۾ مختلف وقتن ۾ ريگيولر رسالن کان علاوه خاص مخدوم محمد زمان طالب الموليٰ، محمد عثمان ڏيپلائي، شمشير الحيدري، سائين محمد ابراهيم جويو صاحب جي حياتيءَ ۾ سندس خدمتن جي مڃتا ۾ صدسالا جشن جي موقعي تي شايع ٿيل ”محمد ابراهيم جويو“ ۽ مخدوم محمد امين فهيم پڻ شامل آهن. ثمينه ميمڻ سنڌي ادبي بورڊ مان نڪرندڙ ماهوار ”سرتيون“ رسالي ۽ ٻارڙن جي ماهوار رسالي ”گل ڦل“ جي انچارج ايڊيٽر ۽ جوائنٽ ايڊيٽر جي حيثيت ۾ پڻ ڪم ڪيو آهي. ماهوار ”سرتيون“ رسالي ۾ سندس ڳچ تعداد ۾ ڪهاڻيون، شاعري ۽ مضمون شايع ٿيل آهن، ۽ مختلف شخصيتن کان ورتل انٽرويو پڻ شايع ٿيل آهن.
”مهراڻ“ جي ايڊيٽر طور هن سنڌ جي وڏن وڏن عالمن، اديبن ۽ ليکڪن جي لکڻين سان گڏ نوجوان ليکڪن جي لکڻين کي پڻ اوليت جي بنياد تي شايع ڪري نئين ٽيلينٽ کي اُتساھ جي ڪوشش پڻ ڪئي آهي. ثمينه ميمڻ جا ٻه ڪتاب ڇپجي چُڪا آهن. جن ۾ هڪ ڪتاب ماس ڪميونيڪيشن شعبي جي اُستاد ڊاڪٽر خان محمد پنهور جي زندگيءَ تي شايع ٿيل مضمونن  کي مرتب ڪيو جنهن جو عنوان ”خان محمد پنهور هڪ مثالي انسان“ آهي. هن  جون ڪهاڻيون سنڌي سماج جي مسئلن ۽ مونجهارن جي صحيح ترجماني ڪن ٿيون. سندس ڪهاڻيون سنڌي عورت جي زندگي جو مرڪز آهن. جنهن ۾ عام عورت جي ڏک، سک، خوشي، غم ۽ فڪر، ڪاميابي، ناڪامي سوچ ۽ لوچ تي لکيل عورت جي اهميت کي اجاگر ڪيو آهي.
 بقول هن جي ته لکڻ جي حوالي سان منهنجي رهنمائيءَ ۾ سائين امداد حسيني جو وڏو هٿ رهيو آهي. انهيءَ ٻوليءَ، گرامر ۽ ايڊيٽنگ جي باري ۾ ڄاڻ ڏني. منهنجي پسند جا ليکڪ امر جليل، غلام نبي مغل، ڊاڪٽر محمود مغل، شبنم گل، ج.ع منگهاڻي امدادحسيني ۽ نسيم ٿيٻو آهن. هن جي پسند جي صنف ناول آهي. هوءَ ڪهاڻي لکڻ کي وڌيڪ ترجيح ڏيندي آهي.هن جا پسنديده فنڪار زرينه بلوچ، مائي ڀاڳي، فقير عبدالغفور ۽ عابده پروين آهن.

سندس ادبي مصروفيتن سان گڏ هوءَ هڪ گهريتڙي ۽ سگهڙ عورت  آهي. رشتن کي سنڀالڻ ۽ انهن کي نڀائڻ تي هن کي يقين آهي.پنهنجي محسنن ۽ دوستن کي هميشه ياد رکڻ سندس خوبي آهي. هوءَ ٻين جي خوشين ۾ خوش رهندي آهي، ٻين جي تڪليفون دور ڪرڻ کي ترجيع ڏئي ٿي. پنهنجي سينئرس ۽ بزرگن جو احترام ڪرڻ سندس اهم گڻ آهن. هن کي سادو کاڌو کائڻ ۽ ساده ڪپڙا پهرڻ پسند آهن.نوڪري واري وقت کان پوءِ باقي وقت پنهنجي گهر کي ڏيڻ  پنهنجي ٻارن کي وقت ڏيڻ انهن سان ڪچهري ڪرڻ کي وڌيڪ اوليت ڏئي ٿي. ڇو ته ٻارن جي تربيت ۾ ماءُ پيءُ جو وڏو ڪردار آهي. انهن کي پنهنجو دوست بڻائجي ۽ انهن جي ڳالهين کي ٻڌجي ته جيئن هو هر ڳالھ بنا جهجڪ شيئر ڪري سگهن. ٻارن کي بهتر تربيت سان گڏوگڏ انهن کي صحيح ۽ غلط جي پرک ڏجي ته جيئن هو غلط صحبت کان بچي سگهن.هن کي ٻه پُٽ راول ۽ خان محمد آهن، جن جي تعليم ۽ تربيت هوءَ پاڻ ۽ سندس گهر وارو عبدالمجيد پنهور گڏجي ڪن ٿا. هن جي بقول ته زندگيءَ جو ڪارونهوار خوش اسلوبي سان تڏهن ئي هلي سگهي ٿو جڏهن عورت ۽ مرد هر ڏُک ۽ سک ۾ گڏجي ساٿي ٿين.   


Key words: Samina Memon, Sindhi Women writer, Sindhi Adabi board, Mehran Magazine, 

The practical work is carried under supervision of Sohail Sangi, 
at Media and Communication Department, University of Sindh

------- ------------- --------  -----------------   
Despite instructions  u attached foto in the text file
Writer's name is missing in the Sindhi
First para is not relevant its bay=t Sindhi Adabi board
Every para starts with name of ثمينه ميمڻ , this does not look good.
Information is not reporting based and also not in interesting manner.
Its all abt her literary career, nothing abt personality or personal life
Profile is describing a personality in informal manner

Sanam
M.a Previous
2k20/MMC/48
Assignment: Profile

ثمينه ميمڻ
سنڌي ادب ۽ ٻوليءَ جي واڌ ويجھ ۽ ڀلائيءَ لاءِ سنڌ سرڪار پاران 1940ع ۾ ”سنڌي ادب لاءِ مرڪزي صلاحڪار بورڊ“ جي نالي سان هڪ اداري جو بنياد رکيو ويو. جيڪو اڳتي هلي 1951ع ۾ سنڌي عوام کي هڪ منتظم ادبي ادارو فراهم ڪرڻ جي خيال کان ان کي ”سنڌي ادبي بورڊ“ جو نالو ڏنو ويو، ۽ سنڌي ادبي بورڊ پنهنجي قائم ٿيڻ کان اڄ تائين سنڌي ادب ۽ ٻوليءَ لاءِ سگرم عم) آهي. انهيءَ سلسلي جي ڪڙي ”مهراڻ“ رسالي جو پڻ اجراء آهي. جنهن جو نالو علامه عمر بن محمد دائود پوٽو صاحب تجويز ڪيو. هيءُ رسالو جديد ادب جي تخليق جو سرواڻ بڻيو جنهن هزارن جي تعداد ۾ نوان لکندڙ پيدا ڪيا. ۽ انهن پنهنجي شاعري ۽ مضمونن ذريعي سنڌي ادب جي وڏي خدمت ڪئي. هن رسالي جو اوج محترم محمد ابراهيم جويي ۽ غلام محمد گرامي صاحب جي ادارت هيٺ ٿيو. اڳتي هلي مختلف دوۡرن ۾ سنڌ جا ناليوارا اديب ايڊيٽر رهي چڪا آهن. ويجهڙائيءَ واري دوۡر ۾ يعني 2011ع کان اڄ تائين سنڌ جي ناليواري ڪهاڻيڪاره ، شاعره ثمينه ميمڻ ايڊيٽر جي حيثيت ۾ پنهنجون خدمتون سرانجام ڏئي رهي آهي. جنهن جي ادارت ۾ مختلف وقتن ۾ ريگيولر رسالن کان علاوه خاص مخدوم محمد زمان طالب الموليٰ، محمد عثمان ڏيپلائي، شمشير الحيدري، سائين محمد ابراهيم جويو صاحب جي حياتيءَ ۾ سندس خدمتن جي مڃتا ۾ صدسالا جشن جي موقعي تي شايع ٿيل ”مخدوم محمد امين فهيم“ پڻ شامل آهن.
محترمه ثمينه ميمڻ جو جنم سنڌ جي ساهتي پرڳڻي نوشهروفيروز ضلعي جي تاريخي شهر مورو ۾ ٿيو. پرائمري تعليم مورو شهر جي احمد شاھ مان حاصل ڪئي. سيڪنڊري تعليم اين، جي، وي هاءِ اسڪول ڪراچيءَ مان ۽ انٽرميڊيٽ وومينس ڪاليج ڪراچيءَ، گريجوئيشن زبيده گورنمينٽ گرلس ڪاليج حيدرآباد ۽ ماس ڪميونيڪيشن ۾ ماسٽرس سنڌ يونيورسٽيءَ مان ڪئي.
محترمه ثمينه ميمڻ لکڻ جي شروعات وومينس گرلس ڪاليج مان نڪرندڙ مئگزين ۾ ڪهاڻيءَ طوري ڪئي جنهن ۾ انعام پڻ حاصل ڪيائين. ان کان پوءِ 1985ع  کان باقاعدگيءَ سان لکڻ جي شروعات مختلف اخبارن هلال پاڪستان، عوامي آواز، روزاني مهراڻ، روزاني ڪاوش، ڪاوش مئگزين ۾ ڪئي. جنهن ۾ سندس ڪهاڻيون، شاعري، مضمون، ليک، انٽرويو ۽ تبصرا پڻ شامل آهن. 1985ع ۾ ڪراچيءَ مان نڪرندڙ ماهوار ”پارس“ ۾ اسسٽنٽ ايڊيٽر طور تي ڪم پڻ ڪيو، ۽ ڪراچيءَ ۾ سنڌ گريجوئيشن پاران شروع ڪيل ايم، اي، ايف (M.E.F) اسڪول ۾ پڻ استاد جي حيثيت ۾ ڊيوٽي سرانجام ڏنائين.
سنڌ ادبي بورڊ ۾ سندس مقرري 16 اپريل 1090ع ۾ ڪمپيوٽر آپريٽر جي حيثيت ۾ ٿي. ان کان پوءِ بورڊ انتظاميه پاران کييس مليل اسائمينٽ ۾ ريسرچ اسسٽنٽ جون ذميواريون ڏنيون ويون. جنهن تحت هن سنڌ جي اديبن جي ڊائريڪٽري پڻ مرتب ڪئي ۽ بورڊ جي لائبرريءَ ۾ لائبررين طور مقرريءَ دوران ڪيٽالاگ پڻ جوڙيو، ان کان علاوه ٽي ماهي ”مهراڻ“ فهرست 1981ع کان 2006 تائين پڻ مرتب ڏني. محترمه ثمينه ميمڻ سنڌي ادبي بورڊ مان نڪرندڙ ماهوار ”سرتيون“ رسالي ۽ ٻارڙن جي ماهوار  رسالي ”گل ڦل“ جي انچارج ايڊيٽر ۽ جوائنٽ ايڊيٽر جي حيثيت ۾ پڻ ڪم ڪيو آهي. ماهوار ”سرتيون“ رسالي ۾ سندس ڳچ تعداد ۾ ڪهاڻيون، شاعري ۽ مضمون شايع ٿيل آهن. ۽ مختلف شخصيتن کان ورتل انٽرويو پڻ شايع ٿيل آهن. ۽ سرتيون رسالي جي خاص نمبرن ۾ محترمه بينظير ڀٽو، بيگم نصرت ڀٽو، خيرالنساءِ جعفري ۽ سندس امڙ ”صاحب خاتون“ تي لکيل پروفائيل شايع ٿيل آهن. ماهوار ”پارس“ رسالي ۾ ناليواري شاعره ارم محبوب ۽ ڪهاڻيڪار ۽ ماس ڪميونيڪيشن شعبي جي سربراھ آغا رافيق کان ورتل انٽرويو پڻ شايع ٿيل آهن.
ماهوار ”سرتيون“ ۾ سنڌ جي ناليواري فنڪاره مئڊم عابده پروين، نامياري چترڪار ڊاڪٽر زبيده جوڻيجو ۽ شاعره سلمه پنهور، ۽ روشن ناز (ڌاريجو) کان ورتل انٽرويو پڻ شايع ٿيل آهن، ۽ مختلف وقتن تي ٻين ناليوارن شخصيتن شمشيرالحيدري، ڊاڪٽر خان محمد پنهور، ڊاڪٽر تنوير جوڻيجو، شبنم گل ۽ نسيم ٿيٻو تي پڻ پروڦائيل لکيا آهن. ۽ ڪجھ ڪتابن تي تبصرا ۽ ليک پڻ لکيا آهن.
ثمينه ميمڻ ”مهراڻ“ جي ايڊيٽر طور سنڌ جي وڏن وڏن عالمن، اديبن ۽ ليکڪن جي لکڻين سان گڏ نوجوان ليکڪن جي لکڻين کي پڻ اوليت جي بنياد تي شايع ڪري نئين ٽيلينٽ کي اُتساھ جي ڪوشش پڻ ڪئي آهي. ثمينه ميمڻ جا ٻ ڪتاب ڇپجي چُڪا آهن. جن ۾ هڪ ڪتاب ماس ڪميونيڪيشن شعبي جي باني ۽ اُستاد ڊاڪٽر خان محمد پنهور جي زندگيءَ تي شايع ٿيل مضمونن  کي مرتب ڪيو جنهن جو عنوان ”خان محمد پنهور هڪ مثالي انسان“ آهي.ٻيو ڪتاب سندس لکيل ڪهاڻين تي مشتمل مجموعو ”ترورو“ جيڪو 2017ع ۾ پوپٽ پبليڪيشن خيرپورميرس پاران شايع ٿيل آهي. هن ڪتاب ۾ 15 ڪهاڻيون شامل آهن، جنهن ۾ ناليواري ليکڪ پروفيسر ڊاڪٽر تنوير جوڻيجو مهاڳ لکيو آهي. ۽ ٻه اکر  سنڌ جي ناليواري شاعرامداد حسيني لکيا آهن. نالي واري شاعره ڪهاڻيڪار ۽ ناول نگار ج.ع مُنگهاڻي ، اڪبر سومرو، شبنم گل، فهيم نوناري، عبدالمجيد پنهور، نسيم خان پنهور، دين محمد ڪلهوڙو، حسينه آزاد جتوئي جي ڪهاڻين جي باري ۾ رايا شامل آهن.
ثمينه ميمڻ جو ڪهاڻيون سنڌي سماج جي مسئلن ۽ مونجهارن جي صحيح ترجماني ڪن ٿيون. سندس ڪهاڻيون سنڌي عورت جي زندگي جو مرڪز آهن. جنهن ۾ عام عورت جي ڏک، سک، خوشي، غم ۽ فڪر، ڪاميابي، ناڪامي سوچ ۽ لوچ تي لکيل عورت جي اهميت کي اجاگر ڪيو آهي. سندس ادبي مصروفيتن سان گڏ هوءَ هڪ گهريتڙي۽ سگهڙ عورت  آهي. رشتن کي سنڀالڻ ۽ انهن کي نڀائڻ تي هن کي يقين آهي. نوڪري واري وقت کان پوءِ باقي وقت پنهنجي گهر کي ڏيڻ  پنهنجي ٻارن کي وقت ڏيڻ انهن سان ڪچهري ڪرڻ کي وڌيڪ اوليت ڏئي ٿي. هو ٻين جي خوشين ۾ خوش رهندي آهي، ٻين جي تڪليفون دور ڪرڻ کي ترجيع ڏئي ٿي. هن کي ٻه پُٽ راول ۽ خان محمد آهن، جن جي تعليم ۽ تربيت هوءَ پاڻ ۽ سندس گهر  وارو عبدالمجيد پنهور گڏجي ڪن ٿا. هن جي بقول ته زندگيءَ جو ڪارونهوار خوش اسلوبي سان تڏهن ئي هلي سگهي ٿو جڏهن عورت ۽ مرد هر ڏُک ۽ سک ۾ گڏجي ساٿي ٿين.  


Monday, May 4, 2020

Farhan Ali, Profile, Sindhi

To be checked

Wrong Subject line and file name
Photo not sent

فرحان علي
رول نمبر 19
ايم اي اڳ
منير حسين آرائين هيڊ ماسٽر برائيٽ فيوچر پبلڪ اسڪول ماتلي ضلعو بدين

  منير حسين 2 مارچ 1982 ۾ هڪ هاري جي گهر ۾ پيدا ٿيو.منير حسين جو والد هڪ ھاري هو .هتي هو ماڻهن جي زمينن جي پوک
ڪندو هو. منير حسين 6 مهينن جو هئو جڏهن هو اوچتو مفلوج ٿي ويو. منير حسين بڻجي ويو جڏهن هو 6 سالن جو هو ، هن کي هر
ڏينهن اسڪول وڃڻ ۾ شوق پيدا ٿيو .هن اهو ڪرڻ بعد ، هن گريجوئيشن ڪئي.
منير حسين هڪ تمام سٺو انسان هجڻ جي باوجود هڪ سٺو استاد پڻ آهي .ماتلي شهر جا 10 سيڪڙو ماڻهو منير حسين کي نالي سان
سڃاڻ ۽ سڃاڻندا آهن. منير حسين معذور ۽ غريب هجڻ جي باوجود پنهنجي محنت برقرار رکي منير حسين جو تعلق تعلقو فارم سان هو
منير حسين جي خواهش ۽ سوچ اها هئي ته هو صرف پڙهڻ ۽ لکڻ جي مدد سان غريبن جي مدد ڪري سگهي.ھن طريقي سان اهو
سلسلو جاري رهيو.ڱوٿ زميندارچئو جيڪڏهن منير حسين کي توهان هر ڏينهن پنهنجي ڪلهن تي کڻندا پوءِ ساڳي شي ڪري وڃو ،
جنهن جي ڪري منير جو والد هن زمين ڇڏي ڏني ۽ هڪ مزدور طور ڪم ڪندي رهيا 2 سال بعد هو ڪالروموري جي ڳوٺ آيو
.منير حسين جو پيءُ ابو محمد حسين مزدوري ڪري پئسو گڏ ڪري چڪو هو ۽ ڪالروموري جي ڳوٺ ۾ چانهه هوٽل کوليو. ۽ منير
حسين جا ٻه وڌيڪ ڀائر آيا ۽ هن پنهنجي ڀاءُ جي مدد ڪئي ۽ منير 1997 ۾ مئٽرڪ ڪيو هو پوءِ ٻارن کي ٽيوشن ڏيڻ شروع ڪئ.
منير حسين جا ڪل 13 شاگرد هئا ، پوءِ شاگردن جو تعداد وڌي 80 ٿي ويو. ماڻهو هن کي غريب ۽ معذور سمجهندڙ ھئيسا۽ پئسا ڏيڻ
لڱا. پوءِ ته منير منير ٿي ويو. ھن وقت ۾ ميٽرڪ پڻ سندس علمي جدوجهد ۾ هڪ وڏي شيءِ هئي. منير مصروف رهيو ۽ منير حسين
پروازن جي ڪاميابيءَ کي ڇڪيو وڃي وزير اعظم نواز شريف ڳوٺ نبي بخش ڪمبوه جو دورو ڪرڻ آيو هو ملاقات دوران سندس
دوست حاجي ابراهيم ڪمبوه کي منير حسين پڙهيو ۽ کيس پرائمري استاد ڏيڻ جو حڪم ڏنو. منير حسين جو پيءُ سڌريل ماڻهو هو ،
حاجي ابراهيم هن کان حڪم ورتو هن چيو ، ”مان اهو سڀ ڪم ڪندس.“ ساڳي ريت حاجي ابراهيم ڪمبوه ڳوٺ نبي بخش ڪمبوه جو
آرڊر مون کان وسري ويو. ايتري تائين جو اهو آرڊر نه ملي سگهيو آهي. منير حسين ۽ سندس ابو محمد حسين صبر ڪيو.
۽ منير حسين وڌڻ لڳا منير حسين ٽيوشن سينٽر کان اسڪول کوليو. ٺيڪ 5 سال بعد ، منير حسين جي گهروارن سوچيو ته اسان کي
ڳوٺ ڇڏڻ ۽ شھر وڃڻ گھرجي. ساڳيءَ ريت ھو ماتلي جي شھر ۾ شفٽ ٿيا. ڱوٺ واري اسکول ۾ استاد ڀرتي ڪيا ويا
منير حسين ماتلي ۾ هڪ اسڪول پڻ کوليو ۽ ٻه ٽيوشن سينٽر کوليا ، هاڻي منير حسين ڪاميابي کي ڇڪي رهيو آهي ۽ غريبن جي مدد
ڪري رهيو آهي ، هو سٺو وقت گذاري رهيو آهي هو هر غريب کي راشن پڻ ڏيندو آهي.
منير حسين کي مان سلام پيش ڪريان ٿو هن غربت ۾ پنهنجي تعليم جي جدوجهد جاري رکي

Key words: Muneer Hussain Arain, Matli, Education, Teaching, Badin, Tuition centre 

The practical work is carried under supervision of Sohail Sangi, 
at Media and Communication Department, University of Sindh

Fahad Ali Janwari, Profile, Sindhi

To be checked
By line not written 
پروفائيل : حسام الدين ميراڻي
پني عاقل جي ننڍڙي ڳوٺ چندن مياڻي ۾ پروفيسر سڪندر علي ميراڻي جي گھر ۾ جنم وٺندڙ حسام الدين
ميراڻي بنيادي تعليم ڳوٺ جي اسڪول مان حاصل ڪئي، 1996ع ۾ پرائمري تعليم حاصل ڪرڻ کان
پوءِ پنو عاقل جي سٽي اسڪول مان مئٽرڪ ڪرڻ بعد 2001 حاصل ڪري پنوعاقل جي ڪاليج مان
ئي 12 ھين درجا پاس ڪيا، حسام الدين ميراڻي ننڍپڻ کان ئي آرٽ ۾ دلچسپي رکندڙ ھيو، بنيادي تعليم
کان انٽر تائين ھو آرٽ جي سرگرمين ۾ حصو وٺندو رھيو، 
ھن جو آرٽ سان لڳاءُ تمام گھڻو ھجڻ
ڪري 12 درجا پاس ڪرڻ بعد 2009ع ۾ مهراڻ يونيورسٽي جي سينٽر آف ايڪسيلنس ان آرٽ اينڊ
ڊزائين ۾ انٽري ٽيسٽ ڏيڻ بعد فائن آرٽ شعبي ۾ سليڪٽ ٿي ويو، ڇا ڪاڻ تھ ھر ماڻھون اندر ھڪ
آرٽسٽ موجود ھجي ٿو پر ھر انسان پنھنجي اندر جي آرٽسٽ کي ظاھر نھ ڪري سگھندو آھي پر ھن
نوجوان پنھنجي اندر جي آرٽسٽ کي جاڳائي پنھنجي صلاحيتن کي اجاگر ڪيو، دنيا اندر اھي آرٽسٽ ئي
آھن جيڪي رنگن ذريعي سماج جي عڪاسي ڪن ٿا، جڏھن جديد دور نھ ھيو تڏھن پڻ اھي آرٽسٽ ئي

ھوندا ھيا جيڪي رابطن جي بحالي يا ٻولين کي سمجھڻ لاءِ پنھنجي آرٽ جي مھارت سان ڪندا ھيا،
حسام ميراڻي جو آرٽ سان ايترو تھ لڳاءُ ھيو ۽ ھن جي مسلسل جستجو جي ڪري ھن بيچلر آف آرٽ
جي ڊگري پهرين پوزيشن ۾ ماڻي سلور مڊل پنھنجي نانءُ ڪري ورتو، پر پوءِ بھ جھڙو ھُن پاڻ کي
نامڪمل سمجھو ٿي ۽ ھن پوءِ اسلام آباد جي فائونڊيشن يونيورسٽي جي ڪميونيڪشن شعبي مان
گرافڪ ڊزائن ۾ ماسٽرز جي ڊگري حاصل ڪري ڊجيٽل آرٽسٽ طور بھ پاڻ مڃرائي ورتو، جنھن بعد
ھن سنڌ يونيورسٽي ۾ نوڪري لاءِ اپلائي ڪيو سندس قابليت تحت ميرٽ تي سنڌ يونيورسٽي جي آرٽ
اينڊ ڊزائن شعبي ۾ ھڪ استاد طور مقرر ٿي ويو 
پروفيسر حسام الدين ميراڻي نوڪري دوران ئي سنڌ
يونيورسٽي جي آرٽ اينڊ ڊزائين شعبي مان ايم فل آرٽ سان لاڳاپيل هڪ موضوع “پبلسٽي ڊزائين ان
سنڌ” تي ڪئي آهي، جنهن ۾ هن مقامي پينٽرن جي باري ۾ تحقيق ڪئي ته سندن ڪم ڪهڙي طرز جو
آهي، سندن فن نسل در نسل ڪهڙي طرح منتقل ٿئي ٿو ۽ اهي پينٽر پنهنجي فن ۾ ڪھڙي قسم جون
ٽيڪنيڪ استعمال ڪن ٿا، آرٽ سان لاڳاپيل شين جي تشهير ۽ مشهوري ڪئين ڪن ٿا؟ هي هڪ تمام
وڏو موضوع ھيو جنهن تي اڃان وڌيڪ تحقيق جي ضرورت ھئي، انهيءَ موضوع تي اسسٽنٽ
پروفيسر حسام الدين هڪ ڪتاب به لکي رهيو آهي، جنهن ۾ لوڪل پينٽرن جي زندگي بابت تحقيق
.شامل هوندي

پروفيسر حسام الدين ميراڻي جو آرٽ بابت چوڻ آھي ته ماضي ۾ سنڌ ۾ آرٽ کي هميشه مٿانهين حاصل
رهي آهي، جنهن ۾ نواڻ/ جدت آڻڻ جي ضرورت آهي. آرٽ کانسواءِ دنيا ۾ ڪابه شيءَ رهي نٿي
سگهي، پنهنجي روز مرهه جي هر هڪ لمحي ۾ آرٽ سمايل آهي، ڪپڙا، ٿانو، جتيون، ڀتيون، ماڳ
مڪان مطلب هر اها شيءَ جنهن تي اسانجي نظر پوي ٿي، اها هڪ آرٽسٽ ئي پنهنجي فن مان ٺاهي
سگهي ٿو، ٻاهرين ملڪن ۾ آرٽ جي شعبي کي تمام گهڻي پذيرائي حاصل آهي پر پنهنجي سماج ۾ ان کي

تمام گهٽ پذيرائي حاصل آهي، ڇاڪاڻ ته اسانجو سماج آرٽ کان اڻ واقف آهي. هتي جا ماڻهو اڻڄاڻائي
۾ هر شعبي ۾ آرٽ ڪري رهيا آهن پر کين انهي ڳالهه جو احساس نه آهي، جڏهن ته ترقي يافته ملڪن
جي ماڻهن کي ان جي اهميت جي خبر آهي. اسانجي معاشري ۾ 80 فيصد ٻار آرٽ جي شعبي ۾ اچڻ
چاهين ٿا پر هن سوسائٽي ۾ آرٽ جو ايترو معيار نٿو ملي. آرٽ جي شعبي ۾ جيڪي ۾ دلچسپي رکندڙ
پيغام اهو آهي ته جنهن به شعبي ۾ اوهان جي دلچسپي هجي اهو اختيار ڪيو.
پروفيسر حسام ميراڻي شاگردي واري دور ۾ شاگردن جي حقن جي حاصلات لاءِ شاگرد اڳواڻ طور پڻ
پنھنجي صلاحيتن کي استعمال ڪندي شاگردن جي مسئلن لاءِ آواز اٿاريو ۽ شاگردن جا ڪيترائي مسئلا
حل ڪرايا، ھن وقت بھ حسام ميراڻي شاگردن جو ڀرجھلو ٿي بيھي ٿو.

Key words: Hassam Mirani, Art, CEAD, Artist, Pano Aqil, Digital Artist, Fahad Ali Janwari,  

The practical work is carried under supervision of Sohail Sangi, 
at Media and Communication Department, University of Sindh

#FahadJanwari,

Abdul Kabeer, Profile, Sindhi

To be checked

Incorrect file name and By line
Photo not sent 

 سنڌ آباد گار جو صدر حاجي
عبدالمجيد نظاماڻي
جڏهن ته اسان کي خبر آهي ته اسان جي سنڌ هڪ زرعي طور تي مالامال آهي هن سنڌ جي زمين تي ٿيندڙ ڪمند ڦٽي ڪڻڪ
ساري جؤ سورج مکي ٽماٽو بصر ۽ ٿيندڙ ٻين مختلف قسمن جون آباديون پڻ ٿيئن ٿيون۔ پر بدقسمتي سان اسان جي ننڍن زميندارن
کي آبادي جو اگھ انهن کي صحيح حق تي نه ملي رهيو آهي۔ ۽ سنڌ کي پاڻي مقرر وقت تي نه ڏيڻ جي ڪري سنڌ جي زميندارن کي
تمام گھڻون نقصان پهچي ٿو به نسبت ٻين صوبن جي۔ تنهن ڪري حاجي عبدالمجيد نظاماڻي سنڌ جي لاڙ جي زميندارن کي هڪ
جهڙائي آبادي جا اگھ ملڻ ۽ انهن کي پاڻي جي رسائي لاء ۽ انهن جي حقن لاء هڪ زميندار تنظيم جوڙي جنهن ۾ زميندارن جي
حقن ۾ ڳالهيون ڪيون وينديون ۽ انهن کي پنهنجي حقن جا اگھ ڏنا ويندا ۽ انهن کي مقرر وقت تي پاڻي ڏنون ويندو۔ ان زميندار
تنظيم کي ” سنڌ آبادگار“ نالو ڏنون ويو۔ سنڌ آبادگار جي مکيه دفتر حيدرآباد ۾ آھي ۽ هي هڪ زميندارن جي لاء هڪ نجي ادارو
آهي جنهن ۾ سنڌ جي زميندارن جا مسئلا حل ڪيا ويندا ان ريت اسان هن تنظيم کي هڪ قسم جي زميندارن لاء اينجيؤز به چئي
سگهون ٿا۔ سنڌ آبادگار جو صدر حاجي عبدالمجيد نظاماڻي هميشه سنڌ جي زميندارن جي حقن لاء اٿيو آهي۔ 
حاجي عبدالمجيد
نظاماڻي لاڙ سنڌ جي ضلع ٽنڊو محمد خان ۽ ڳوٺ باقر نظاماڻي ۾ رهي رهيو آهي۔ هن پنهنجي تعليم ۾ وڪالت جو درجو حاصل
ڪيو۔ پاڪستان ۾ جڏهن به آبادي جي لحاظ کان جيڪي به وڏا مزاڪرات ٿين ٿا انهن مزاڪراتن ۾ حاجي عبدالمجيد نظاماڻي کي
هڪ خاص طور تي وڏي پيماني تي دوعوت ڏني ويندي آهي ۽ آبادي جي هر لحاظ کان مشورو به ان کان ورتو ويندو آهي ۽ ان
جي مشورن تي ئي غور ۽ فڪر ڪيو ويندو آهي۔ جڏهن صدر پرويز مشرف ڪالاباغ ڊيم جي ٺھراء جون ڳالهيون ڪيون ۽
چيائين ته ڪالاباغ ڊيم ٺهايو وڃي ۽ ان وقت حاجي عبدالمجيد نظاماڻي ان ڊيم جي ٺھڻ لاء بالڪل به راضي نه هو ڇو ته اگر اهو
ڊيم ٺهايو وڃي ها ته سنڌ جي زميندارن لاء پاڻي جو هڪ وڏو بهران نظر اچي ها۔ 
حاجي عبدالمجيد نظاماڻي جي ڳالهين جي مطابق
ڪالاباغ ڊيم هڪ اهڙي جگھ تي تعمير ڪيو پي ويو جتان ايندڙ سڃو سنڌون درياء جو پاڻي ڪالاباغ ڊيم ۾ اچي لهي ها ۽ ان بابت
سنڌون درياء ۾ پاڻي جي وڏي قلت ٿئي ها۔ اهڙي طرح سنڌ جي زمينن تي خشڪي ڇائجي وڃي ها ۽ صوبو سنڌ زرعي معيشت
جي هوالي سان ٻين صوبن کان ڪمزور ٿي وڃي ها ۽ سنڌ جا ڪافي ننڍا زميندار بيروزگار ٿي وڃن ها۔ ان حوالي سان حاجي
عبدالمجيد نظاماڻي ڪالاباغ ڊيم نه ٺاهڻ جي لاء تمام گهڻيون ڪوششون ڪيون ۽ ان ڪوشش ۾ هيستائين ڪامياب به رهيو آهي۔
هن ڪالاباغ ڊيم ٺهڻ جي خلاف سنڌ جا سمورا وڏا زميندار پڻ گڏ ڪيا ۽ انهن کي آگها ڪري سمجهايو ته هي ڊيم اسان جي سنڌ
جي زمينن کي غيرآباد ڪري ڇڏيندو ڇو ته هي ڊيم هڪ اهڙي جگھ تي تعمير ڪيو پيو وڃي جتان درياء سنڌ جو سمورو ايندڙ
پاڻي ان ڊيم وٽ اچي گڏ ٿيندو ۽ پوء هتي اسان وٽ پاڻي جي قلت جو شڪار هميشه جي لاء بڻجي ويندو۔ ان ڊيم جي منصوبي کي
روڪ جي لاء هن شخص هر اها مدد ڪئي جيڪا هي ڪري سگهيو ٿي۔

حاجي عبدالمجيد نظاماڻي جا ڪجھ قول ۽ ڪهاوتون۔ جن جي هڪ هي چوڻي تمام سٺي ۽ هر انسان لاء ڪارائتي پڻ آهي۔ ان جي
چوڻي هي آهي ته ” فرض قرض ۽ مرض انهن ٽن ڳالهين تي انسان کي ڪڏهن به دير ڪرڻ نه گهرجي اگر ڪو شخص انهن ٽن
ڳالهين تي دير ڪري ٿو ته ان کي خبر نه پوندي ته هن جو اندروني ڪيڏو نقصان ٿي رهيو آهي۔ حاجي عبدالمجيد نظاماڻي ڪتاب
۽ اخبارن پڙهڻ جو عادي آهى۔ ڪتاب پڙهڻ ۾ هي اڪثر شاه جو رسالو پڙهندو آهي ۽ ان سان گڏوگڏ هن شخص کي شاه جي
شاعري ۽ ان جي سمجهاڻي تشريح سميت ياد آهي۔ اخبار پڙهڻ ۾ هي اڪثر سنڌي ”ڪاوش ۽ ڊان انگلش نيوز پيپر“ اهي ٻئي
نيوزپيپر مڪمل پڙهي ٿو روز جي بنياد سان۔
سياست جي دنيا ۾ هن ڪڏهن به پنهنجو پير نه رکيو پر هي جمعات اسلامي جي لاء هميشه لاء ھامي رهيو آهي۔

Name. Abdul Kabeer
M.A previous
Roll no: 2k20/mmc/03

Key words: Sindh Abadgar Board, Abdulmajeed Nizamani, Sindh Water issue, Badin, Kala Bagh Dam

The practical work is carried under supervision of Sohail Sangi, 
at Media and Communication Department, University of Sindh

Isra Soomro, Profile, English

To be checked

Asghar Khoso
People call me Comedian

Isra Soomro
Profile MA Roll#23

Famous name of Sindh  Asghar Khoso, God has blessed him with multi-talent. An uneducated boy
from a poor background, who's father was just a clerk, took family responsibility after his father;s
demise, did a different type of labors to fulfill family requirements.
Born on 1 January 1975 in Johi village in Dadu district, is known for his unique style of comedy with a
mix of Sindhi and Urdu languages. Indeed he was born in a poor family with zero education but always
dreamed big. In the village, he asks people for the charity of Rs.2 to Rs.5 so he can organize stage shows, but that was not so easy, he told us "when I used to ask for charity to organizing the event people laugh on me and say, you were born to beg. These lines just break me but I never give up on my aims and move on ;. His hard work, struggle, and talent is not hidden from us in his case, it is very clear you get what you work for not what you wish for, he said: “ once I didn’t have such amount that I couldn't
arrange a stage for the show so I perform it on a disowned damage bus which was standing in the park”.
He use to entertain villagers at a wedding by performing an act but now his most famous song "
Hojamalo-Asghar Khoso version" is being played in every ceremony.
Sindhi famous and traditional song "Hojamalo" which itself has a history, Asghar Khoso has created his own version. Hojamalo-Asghar Khoso version is such a love I believe no one can resist dancing on it.
When we ask him about his music career, what amazes him to sing songs he said: "I believe in staying multi-talented personality, if I'm going to some event and going to perform just a comedy act, so how long it would take? Just 10 to 15 mints, so what about the remaining show and the most important part of the event is that I'm the only invited artist. So I have to cover the complete event, this is the main reason I start singing. I have a bad voice but still sing just to entertain the audience.
Life is not a fairy tale it is full of hurdles, his life not as funny as he is on stage, he said " once my mother was in hospital but I had to leave her there alone because of some commitment. My son is an asthma
patient, many times it happens likes I've to leave him in hospital and go for commitments because
commitments are important. It's not like my family is not important for me but whatever I'm doing, it ;s obviously for them and their future"
He is the one Who earned his reputation and name on his own, with the support of "social media".His melodies are not only well-known in Sindh but all over the country. Some of his melodies just like  ; Mere Rashke Qamar-funny version got 6.5M views on YouTube and got famous in neighbor state as well as".

In comparison to traditional media he chose social media whereas traditional media has a huge
platform, he told us "l have weighted complete day outside of channels and director offices instead of
giving me a chance they made fun of me but after 4 years of struggle Allah sent an Angel in the face of
the human being " late Mr. Ghulam Shabir Jamali", he was one who created my Facebook ID even
though I told him I'm uneducated but he didn't even listen to me once. He always wanted Khoso
becomes famous, I recorded my first video at his place. Mine that video went viral and then I created my

Facebook page, till now I have 98,000+ followers on Facebook page and 610k followers on YouTube,
even though I am honored with the Silver button".
He himself is not education but the aim of his life is to educate his sons "Adil Khoso ; and "Hasnain
Khoso", he has huge dreams for them and he has a strong believe that one day they would not be
recognized by sons of comedian but a comedian would be recognized by their names.
A comedian with such enormous fan following with no arrogance no attitude, love, and respect by fan.
One of his fan Mr. Rizwan Memon quoted " Allah has made this man so talented, as it is said talented
person is talented everywhere. I'm 100% sure his talent will shine like a moon in the sky full of stars".He
is loved by a lot of people, a lot of people wish and pray for him.
"My entire focus is on the gold button by YouTube" Asghar Khoso says.

Asghar Khoso, Comedian, Comedy, Johi,  


The practical work is carried under supervision of Sohail Sangi, 
at Media and Communication Department, University of Sindh

Fatima Qureshi Profile English


Name of personality with headline 
do not use un necessary inverted comma
Proper noun should be with cap 
Too many grammatical and spelling mistakes
Not reporting based, its CV type 
Neither inof is interesting nor its in interesting manner.
it does not fall in category of profile

Fatima M.Jawaid
Roll No :  20
  MA Previous
“PROFILE

“INTRODUCTIO”
 He was born in 19-3-1991 in hyderabad Sindh .
Raza Muhammad Memon has been working as an Assistant Director , Social Welfare Department , Govt of Sindh at Taluka City Hyderabad He is not only Focal Person Women Harasment Cell by Ombudsman sindh for Social Welfare Department district  Hyderab ad but also Secetary Health Welfare Committee Liaquat University  Hopsital (LUH) Hyderabad and liaquat University Medical Sciences (LUMS)Jamshoro . In addition to it ,he is also member for Pakistan Bait-ul-Mal Committee for Medical Fund for needy People .
                   Raza Muhammad Completed his early education till intermidate in Hyderabad. After completing HSC(Pre- Engineering ), he did his B.S.C Mathematics from University of sindh Jamshoro in first divison and later on did his M.A in Sociology from same university in 2012.
                     He continued his education and did his 2nd Masters from Quaid –e-Azam University Islamabad by getting 3rd position in National Institute of Pakistan Studies in all four semester .In addition to Studies , he has been teaching as an English Language teacher since 2008 to date . Currently, he has been teaching and holding seat of vice principal at student Link English Institute Hyderabad .
                 I have computer literacy. In fact , I got certification of “Data Entry Computer Operator from SZABIST Hyderabad in 2010.In addition , I have also certification of Drawing . I appeared in “Inter Grade Drawing Examination”In 2005 and qualified for Drawing Certified Teacher.I am also eligible to be a drawing teacher with 1st Division appearing in 6 papers of Drawing .
                  I have got Diploma of English Language from Stream Line English Institute and at same institute.I started teaching from 2008 to onwards.
                I have attended so many but few of them were very informative.
1.Khudi Festival of ideas training for three days from 25th to 27th October 2013 in Lahore.
2.Centre of Peace and Civil Society Training for 6 months in Hyderabad
3.Comman Wealth Training at Pakistan Institute of Parliamentary Affaris in Islamabad on 10th March 2014.
4.Kashmir Committee Training in Islamabad
Iam firmed in my decision regradless of number of times I decided to look at other careers, but I still find myself drawn back to the field of social Work .I am certainly attracted to teaching as well. I love teaching English .I always wish to learn in a an environment of growth & excellence, which would provide me Satisfication , Self development and help me achieve My targets .My priority and emphasis remains on learning new thing from environment by exchanging and sharing experience of seniors.I had always wanted to update myself about new environments in management and Mobilization & to obtain tasks that allowed me to utilize my skills and offer opportunties for professional growth and advancement .
                      According to Raza Muhammad Memon his priority always  remained to learning new things and to strive for excellence ; to live in such environment that enchances my knowledge with always making struggle to achieve What I aim”.
        Besides , his brilliance in accademic, Raza has acquired  a good name and respect in the field of English language by teaching english in different institutes for years .In this regard ,Raza Muhammad memon has been awarded with pride of performace for rendering dedciated services for the students and as , best teacher of the year by Stream Line English Language Institute in 2016.
                             Raza Muhammad memon has been awarded many times on taking differnet positions .He received his first award when he was in class 6 . He got BazmiSathi, award for breaking  last achieved highest marks in history of Noor Muhammad High School , the best Comapre of the year.
                   Raza Muhammad memon has proved that everthing can be achieved with hard working .


The practical work is carried under supervision of Sohail Sangi, 
at Media and Communication Department, University of Sindh


Bilawal Asghar Profile English

There is no story
Not reporting based
Inf is given in interesting manner
Profile is describing a personality in informal manner
pls check notes, video, sample available on FB group

Shazia khushk (The Queen of voice)
Bilawal Asghar Qureshi
Roll No: 17
M.A previous


The tongue can paint what the eyes can't see.
Shazia Khushk  born September 1970 in Jamshoro, she is a Pakistani religious preacher and former folk singer of Sindhi, Balochi Dhatki, Sairaiki, Urdu, Kashmori, Gujrati, Brelvi (??) and Punjabi. She debuted for a show in 1992, upon her husband's encouragement, about whom Shazia mentions,My husband often called me the Queen of Voice. She emerged as a singer of two prominent languages Sindhi and Balochi. Her debut song "Mara Udheta Pakhiyara Kadi Aao Na Maare Des" popularized her name across the country.
She has sung about more than five-hundred songs so far, performing in 45 countries of the world. US Consulate General, Karachi had selected Shazia as the 'goodwill ambassador'.Sindh University, Jamshoro conferred upon her, an honorary fellowship for Sufism - folk music .Even though she made her debut in 1992, folk singer Shazia Khushk continues to be one of Sindh’s most eminent mainstream musicians.
Her most memorable songs are “Mara Udheta Pakhiyara Kadi Aao Na Maare Des” (O my flying bird come to my village for a moment) other iconic songs “Dane Pe Dana” and “Ale Munheja Maroara”.Even though Shazia Khushk is originally from Kashmir, she is most commonly known as a Sindhi folk singer. She says her favourites include Marwari songs (folk songs of Thar) and the poetry of Shah Abdul Latif Bhittai.
In 1992, Khushk sang her Marwari song “Mara Udheta Pakhiyara Kadi Aao Na Maare Des” for the first time which became very popular. Khushk has also sung in the Sindhi, Dhatki, Sairaiki, Urdu, Kashmiri, Gujrati, Brahvi, Punjabi and Balochi languages.
After performing her first folk song on Pakistan Television, Khushk started formally training with Ustad Ferozudin. She later apprenticed with Ustad Niaz Hussain, Feroz Gul, and Ustad Ghulam Hussain at Radio Pakistan. Khushk also took classes from Mai Soni, one of legendary folk singer Mai Bhagi’s daughters. Khushk has sung over 500 songs in her career, toured 45 countries and was nominated a ‘goodwill ambassador’ by the former American consul general in Karachi.
The University of Sindh awarded her an honorary fellowship in Sufism and folk music. She has also received a presidential award from the Uzbekistan government. Khushk resides in Karachi with her husband and their twin sons. Shazia Khushk was not only nominated as a Goodwill Ambassador by the ex-US council General in Karachi, but she also received a presidential accolade from the Uzbekistan government.
She said that she was respected as anambassador of Pakistan she always brief that forginers about the soft image of Pakistan because many of the people are trying to distort the image of country but they could not succeed .
Recently Shazia Khushk has announced that she will no longer pursue her singing career due to religious obligations. she has decided to spend the rest of her life in service of Islam because Islam teach us many good deeds so human must should do good about his religious, Shazia quits her singing profession however may be she will be watched live in many of the ramzans transmissions on different national Television channels. Shazia said that she had received many singing offers from overseas but had to decline owing to 'religious obligations' .She said I'm grateful to my fans for loving my songs and hope that they will strongly support me in my new move. I really took my time to think about what I wanted to do at this stage in my life, I'm certain that I won't want to join this field showbiz again,